محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
پانی چھڑک کر کپاس بیچنا مسئلہ(۲۸۹): کپاس کا کاروبار کرنے والے حضرات جب کپاس کو گاڑی وغیرہ میں بھر تے ہیں، تو اس پر پانی چھڑکتے ہیں، تاکہ کپاس کا وزن زیادہ ہو، یہ صریح دھوکہ بازی ہے، جب کہ مسلمان شخص کا کسی دوسرے کو دھوکہ دینا یہ شانِ مسلمانی کے خلاف ہے، ایسا کرنے والا سخت گنہگار ہوتا ہے(۱)، کپاس میں پانی چھڑکنے کی وجہ سے جس قدر وزن میں اضافہ ہوگا، اس کے مقابل قیمت وعوض بھی شرعاً حرام ہوگا، اصل مالک تک اس قیمت کا لوٹانا واجب ہے، اور اگر یہ ممکن نہ ہو، تو اس کا بلا نیتِ ثواب تصدُّق علی الفقراء لازم ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ سنن أبي داود ‘‘ : عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہ ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرّ برجل یبیع طعامًا فسألہ کیف تبیع ؟ فأخبرہ فأوحی إلیہ أن أدخل یدک فیہ ، فأدخل یدہ فیہ فإذا ہو مبلول ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ لیس منا من غشّ ‘‘ ۔ (۲/۴۸۹ ، النہی عن الغشّ) ما في ’’ مشکوۃ المصابیح ‘‘ : عن واثلۃ بن الأسقع قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : ’’من باع عیبًا لم ینبہ لم یزل فی مقت اللّٰہ أو لم تزل الملائکۃ تلعنہ ‘‘ ۔ (ص/۲۴۹ ، کتاب البیوع) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : اتفق الفقہاء علی أن الغشّ حرام ، سواء أکان بالقول أم بالفعل، وسواء أکان فی المعاملات أم فی غیرہا من المشورۃ والنصیحۃ ۔ (۳۱/۲۱۹) (۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیہم ، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہ ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ ۔ (۷/۲۲۳، کتاب البیوع ، مطلب فیمن ورث مالاً حراما) (فتاوی محمودیہ: ۱۶/۱۴۵،دھان میں پانی ملاکر بیچنا، کراچی)