محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
عقدِ مرابحہ مسئلہ(۲۶۷): کسی چیز کو خرید کر ثمنِ اول (پہلی قیمت) سے کچھ زیادتی (نفع) کے ساتھ فروخت کرنا ’’مُرابَحہ‘‘ کہلاتا ہے ، شرعاً یہ جائز ہے۔(۱) ------------------------------ =البیوع ، باب المتفرقات ، تبیین الحقائق :۴/۵۳۰ ، کتاب البیوع ، باب المتفرقات ، البحر الرائق :۶/۲۸۶ ، کتاب البیع ، باب المتفرقات ، الہدایۃ: ۳/۱۰۳، کتاب البیوع ، مسائل منثورۃ ، مجمع الأنہر: ۳/۱۵۱، کتاب البیوع ، مسائل شتیٰ) ما في ’’ الکوکب الدري ‘‘ : قولہ : ’’ نہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہ ﷺ عن ثمن الکلب ‘‘ ۔ وہذا التحریم کان إذا أمر بقتل الکلاب وحرم الإنتفاع بہا ، فإذا استثنیٰ کلب الماشیۃ وغیرہ جاز بیعہ ۔ (۱/۳۳۷ ، بحوالہ فتاوی محمودیہ :۱۶/۳۲،کراچی) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وصح بیع الکلب والفہد والفیل والقرد والسباع بسائر أنواعہا حتی الہرۃ ، وکذا الطیور سوی الخنزیر ۔ وہو المختار ۔ للانتفاع بہا وبجلدہا۔ (۷/۳۶۸) (فتاوی محمودیہ: ۱۶/۲۷-۳۱،کراچی) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ مختصر القدوري ‘‘ : المرابحۃ : نقل ما ملکہ بالعقد الأول بالثمن الأول مع زیادۃ ربح ۔ (ص/۳۱۶ ، کتاب البیوع ، باب المرابحۃ) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : المرابحۃ بیع بالثمن الأول ومع زیادۃ ربح ۔ (۴/۴۶۱ ، الدر مع الرد : ۷/۲۶۰ ، الہدایۃ :۳/۷۰ ، باب المرابحۃ والتولیۃ ، الموسوعۃ الفقہیۃ :۳۶/۳۱۸) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات:ص/۲۳۰)