محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
گائے پالنے کے لیے دینا مسئلہ(۴۵۱):اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو ایک گائے اس شرط پر پالنے کے لیے دے کہ تم اس کو ایک سال تک پالو ، ایک سال تک اس کا دودھ تمہارا ہوگا، اور گائے اور بچے میرے ہوں گے ، اس طرح کا اجارہ ، اجارۂ فاسدہ کہلاتا ہے، گائے ، دودھ اور بچے سب مالک ہی کے ہوں گے، اور شخص آخر کو محض اجرتِ مثل ملے گی، اس لیے کہ اجارۂ فاسدہ میں مستأجر کو اجرتِ مثل ملتی ہے۔(۱) ------------------------------ =ویدفع للبائع الثمن ، أو یدفع البائع المبیع فیدفع لہ الآخر الثمن ، من غیر تکلم ولا إشارۃ ، ویکون التعاطي فی البیع وغیرہ من المعاوضات ، اختلف الفقہاء في انعقاد البیع بالتعاطي ، فذہب الحنفیۃ والمالیکۃ والحنابلۃ ، وفي قول للشافعیۃ إلی جواز البیع بالتعاطي ، ۔۔۔۔۔۔ وقال ابن قدامۃ في الاستدلال المشروعیۃ بیع التعاطي : إن اللّٰہ أحل البیع ، ولم یبین کیفیتہ ، فوجب الرجوع فیہ إلی العرف ، ۔۔۔۔۔۔ جوزہا الحنفیۃ والمالکیۃ والحنابلۃ ، الإجازۃ بالتعاطي ، وقالوا : إنما ہي کالبیع ، وقد اقتصرت علی المنافع دون العین ، ۔۔۔۔۔۔ وقال ابن عابدین : وفي التاتارخانیۃ أن أبا یوسف سئل عن الرجل یدخل السفینۃ أو یحتجم أو یفتصد أو یدخل الحمام أو یشرب من ماء السقاء ثم یدفع الأجرۃ وثمن الماء ، فقال : یجوز استحساناً ولا یحتاج إلی العقد قبل ذلک ۔ (۱۲/۱۹۸،۱۹۹،۲۰۰) ما في ’’ جمہرۃ القواعد الفقہیۃ ‘‘ : المسلمون عند شروطہم ۔ (۱/۱۷۲، للدکتور علي أحمد الندوي) (احسن الفتاوی: ۸/۹۰، جامع الفتاوی: ۶/۴۷۵، آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۶/۱۹۴) ( فقہی مقالات: ۳/۲۲۴-۲۶۰، مالی معاملات پر غرر کے اثرات: ص/ ۸۹) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن عبد اللّٰہ بن عمر قال : سمعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہ ﷺ یقول : ’’ انطلق ثلاثۃ رہط ممن کان قبلکم ، حتی آووا المبیت إلی غار فدخلوہ ، فانحدرت صخرۃ من الجبل ، فسدّت علیہم الغار ، فقالوا : إنہ لا ینجیکم من ہذہ الصخرۃ إلا أن تدعو =