محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
جعلی سرٹیفکٹ والی گاڑی کی خرید وفروخت مسئلہ(۳۱۷): جعلی سرٹیفیکٹ کے ذریعہ گاڑی فروخت کرنا گویا کہ سامنے والے کو دھوکہ دینا ہے، جب کہ شریعتِ اسلامیہ نے دھوکہ دینے سے منع کیا ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنَّا ‘‘ جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں (۱)۔ مثلاً ؛ایک شخص نے کسی دوسرے شخص سے کوئی گاڑی لیا، بعد میں پتہ چلا کہ اس گاڑی کا سرٹیفیکٹ جعلی ہے، یعنی نقلی کاغذات کے ذریعہ وہ خریدی گئی ہے، اور جعلی کاغذات کا ہونا یہ گاڑی کے لیے باعثِ عیب ہے، کیوں کہ جعلی کاغذات کی بنا پر اس کی قیمت میں نقصان اور کمی آجاتی ہے، اورایسی گاڑیاں عموماً ------------------------------ = محرما ۔ (۱/۱۷، ۱۸، المادۃ :۲) (۲) ما في ’’ مشکوۃ المصابیح ‘‘ : وعن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ تعالی عنہ قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : ’’ إن أشدّ الناس عذابًا عند اللّٰہ المصورون ‘‘ ۔ متفق علیہ ۔ (۲/۳۸۵ ، الفصل الأول ، باب التصاویر) وفیہ أیضًا : وعن ابن عباس رضي اللّٰہ تعالی عنہ قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : ’’ کل مصور في النار یجعل لہ بکل صورۃ صورہا نفسًا فیعذبہ في جہنم ‘‘ ۔ قال ابن عباس : فإن کنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا روح فیہ ۔ متفق علیہ ۔ (۲/۳۸۶ ، باب التصاویر) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وظاہر کلام النووي في ’’ شرح مسلم ‘‘ الإجماع علی تحریم صورۃ الحیوان ، وقال : وسواء صنعہ لما یمتہن أو لغیرہ فصنعتہ حرام بکل حال ، لأن فیہ مضاہاۃ لخلق اللّٰہ تعالی ، وسواء کان في ثوب أو بساط أو درہم وإناء وحائط وغیرہا ۔ (۲/۳۶۰ ، کتاب الصلوٰۃ ، باب ما یفسد الصلوٰۃ ، مطلب إذا تردّد الحکم) (کتاب الفتاوی : ۵/۲۰۶،۲۰۷، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، فتاوی رشیدیہ :ص/۴۹۲، جسیم بک ڈپو دہلی، جدید مسائل کا حل :ص/۱۹۸، تصویر دار برتن فروخت کرنا)=