محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
تحریری ایجاب وقبول مسئلہ(۱۱۴): جب عاقدین(مرد وعورت) مجلسِ نکاح میں موجود ہوں، اور نطق(بولنے) پر قادر ہونے کے باوجود صرف تحریراً ایجاب وقبول کریں، تو یہ نکاح بالاتفاق منعقد نہیں ہوگا، البتہ اگر عاقدین میں سے کوئی غائب ہو، تو عند الاحناف تحریراً ایجاب وقبول سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے، بشرطیکہ خط میں موجود ایجابی تحریر دو گواہوں کو پڑھ کر سنادی جائے، اوراس کے بعد خود بھی ’’قبول ‘‘کے الفاظ کہے(۱)، جب کہ یہ خط ایجاب کے مضمون پر مشتمل ہو، اور اگر خط توکیل کے مضمون پر مشتمل ہو، تو اس صورت میں دو گواہوں کے سامنے اتنا کہنا کافی ہے کہ میں نے اپنا نکاح فلاں سے کرادیا۔(۲) ------------------------------ = الباب الأمر بالطاعۃ لکل أمیر، ولو لم یکن إماماً ، لأن محل الأمر بطاعۃ الأمیر أن یکون مؤمرًا من قبل الإمام ۔ (۱۳/۱۵۱، رقم الحدیث :۷۱۴۴) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : قال فی المعراج : لأن طاعۃ الإمام فیما لیس بمعصیۃ واجبۃ ۔ (۳/۵۳، باب العیدین ، مطلب تجب طاعۃ الإمام)(فتاوی محمودیہ: ۱۰/۶۰۱، کراچی، و۱۶/۱۵۲، میرٹھ) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : (فلا ینعقد) بقبول بالفعل کقبض مہر ، ولا بتعاط ، ولا بکتابۃ حاضر بل غائب بشرط اعلام الشہود بما فی الکتاب ما لم یکن بلفظ الأمر فیتولی الطرفین ۔ قولہ : (ولا بکتابۃ حاضر) فلو کتب تزوجتک فکتبت قبلت لم ینعقد ۔ ’’ بحر ‘‘ ۔ والأظہر أن یقول : فقالت : قبلت ، إذ الکتابۃ من الطرفین بلا قول لا تکفی ولو فی الغیبۃ ۔ تأمل ۔ قولہ : (بل غائب) الظاہر أن المراد بہ الغائب عن المجلس وإن کان حاضرًا فی البلد ۔ (۴/۶۳، کتاب النکاح ، مطلب التزوج بإرسال کتاب) (۲) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : أما عقد النکاح فلا ینعقد بالکتابۃ عند جمہور الفقہاء ، المالکیۃ والشافعیۃ ، والحنابلۃ ، سواء أکان العاقدان حاضرین أم غائبین ، ۔۔۔۔۔۔ =