محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
اجارۃ المشاع مسئلہ(۴۱۹): کوئی چیز دو یا زائد شخصوں کے درمیان مشترک ہو، تو اُن کا آپس میں ایک دوسرے کو، یا کسی اجنبی شخص کو اپنا بعض حصہ یا پورا حصہ کرایہ پر دینے کو ’’اجارۃ المشاع‘‘کہتے ہیں ، حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مشترک چیز کا عقد اجارہ صرف شریک کے ساتھ جائز ہے، جب کہ صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک شریک اور اجنبی دونوں کے ساتھ جائز ہے، اوراکثر مشائخ کے نزدیک فتویٰ امام صاحب رحمہ اللہ کے قول پر ہے ، جب کہ بعض نے صاحبین کے قول پر بھی فتویٰ دیا ہے۔(۱) ------------------------------ =ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : أما الأول : فالإجارۃ جائزۃ عند عامۃ العلماء ۔ (۴/۱۴، کتاب الإجارۃ) ( فقہ حنفی قرآن وسنت کی روشنی میں:۲/۷۵) (۳) ما في ’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ : شرط الصحۃ أنواع : النوع الأول : رضاء العاقدین ۔ النوع الثاني : تعیین المأجور ۔ النوع الثالث : تعیین الأجرۃ ۔ النوع الرابع : تعیین المنفعۃ ۔ النوع الخامس : أن یمکن استیفاء المنفعۃ ۔ النوع السادس : وجود شرط الانعقاد ۔ (۱/۴۹۵ ، ۴۹۶) (جدید معاشی نظام میں اسلامی قانونِ اجارہ :ص/۴۳-۴۶، شرائط الصحۃ) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : لا یجوز إجارۃ المشاع عند أبي حنیفۃ إلا من الشریک ، وقالا : إجارۃ المشاع جائزۃ ۔ (۲/۲۸۷) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ المقارنۃ التجرید ‘‘ : قال أبوحنیفۃ : إجارۃ المشاع من غیر الشریک لا تجوز ، وقال أبو یوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی : تجوز ۔ (۷/۳۶۵۵) ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : وتفسد أیضاً (بالشیوع) بأن یؤجر نصیباً من دارہ ونصیبہ من دار مشترکۃ من غیر شریکہ أو من أحد شریکیہ أنفع الوسائل وعمادیۃ من الفصل الثلاثین ، واحترز بالأصلي عن الطارئ فلا یفسد علی الظاہر ۔۔۔۔ (إلا إذا آجر) کل نصیبہ أو بعضہ (من شریکہ) فیجوز ، وجوّزاہ بکل حال ۔ وعلیہ الفتوی ۔ زیلعي و بحر معزیاً للمغني ۔=