محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
نکاحِ فاسد وباطل میں فرق مسئلہ(۱۲۰): نکاحِ فاسد اسے کہتے ہیں جس کی صحت کی کوئی شرط مفقود ہو، جیسے بغیر گواہوں کے نکاح کرنا، یا ایک بہن کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسری بہن سے نکاح کرنا ، یا چوتھی کی عدت میں ہوتے ہوئے پانچویں سے نکاح کرنا وغیرہ،یہ سب نکاح فاسد ہیں۔ اور بعض نے یہ تعریف کی کہ جس نکاح کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے وہ نکاحِ فاسد اور جو بالاجماع حرام ہے وہ نکاحِ باطل ہے، پس منکوحۂ غیر(دوسرے کی بیوی) یا معتدۂ غیر(دوسرے کی عدت گزار رہی عورت) سے باوجود علم کے نکاح کرنا باطل ہوگا، کیوں کہ وہ زنائے محض ہے۔ الغرض ! دونوں کے مابین فرق صرف وجوبِ عدت اور عدمِ وجوبِ عدت کے لحاظ سے ہے، نکاحِ فاسد میں عدت واجب ہے، اور نکاحِ باطل میں عدت واجب نہیں ہے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : (ویجب مہر المثل في نکاح فاسد) وہو الذی فقد شرطاً من شرائط الصحۃ کشہود ۔ (در مختار) ۔ وفي الشامیۃ : قولہ : (فی نکاح فاسد) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قولہ : (کشہود) ومثلہ تزوج الأختین معاً ، ونکاح الأخت فی عدۃ الأخت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نکح کافر مسلمۃ فولدت منہ لا یثبت النسب منہ ولا تجب العدۃ لأنہ نکاح باطل ۔ اہـ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ نعم فی ’’ البزازیۃ ‘‘ حکایۃ قولین فی أن نکاح المحارم باطل أو فاسد ، والظاہر أن المراد بالباطل ما وجودہ کعدمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وذکر في ’’ البحر ‘‘ ہناک عن ’’ المجتبی ‘‘ أن کل نکاح اختلف العلماء في جوازہ کالنکاح بلا شہود فالدخول فیہ موجب للعدۃ ۔ أما نکاح منکوحۃ الغیر ومعتدتہ فالدخول فیہ لا یوجب العدۃ إن علم أنہا للغیر ، لأنہ لم یقل أحد بجوازہ =