محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
اعضائے انسانی کا ہبہ یا وصیت مسئلہ(۵۲۵): بہت سے لوگ یہ وصیت کرجاتے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد میرے ہاتھ ، پیر ، کان، ناک، آنکھ وغیرہ عطیہ ہیں، تاکہ میرے ان خوبصورت اعضا سے دوسرا شخص استفادہ کرسکے، شرعاً ایسی وصیت کرنا درست نہیں ہے، کیوں کہ کسی بھی چیز کے ہبہ یا عطیہ کرنے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ شئ مال ہو، اور دینے والے کی ملک ہو، اسی طرح وصیت کے لیے بھی شرط یہ ہے کہ جس شئ کی وصیت کی جارہی ہو، وہ شئ مال ہو، اور قابلِ تملیک ہو(۱)، جب کہ انسانی اعضا نہ تو مال ہیں اور نہ ہی انسان اپنے کسی عضو کا مالک ہے، اس لیے انسان اپنے اعضا میں سے کسی عضو کا نہ ہبہ کرسکتا ہے، اور نہ ہی عطیہ دینے کی وصیت کرسکتا ہے، نیز انسانی اعضا کا استعمال کسی بھی حال میں درست نہیں۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ومنہا أن یکون مالاً متقوماً فلا تجوز ہبۃ ما لیس بمال أصلاً ۔۔۔۔۔۔ ومنہا أن یکون مملوکاً للواہب فلا تجوز ہبۃ مال الغیر بغیر إذنہ ۔ (۴/۳۷۴) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : ومنہا أن یکون مالا أو متعلقاً بالمال لأن الوصیۃ إیجاب الملک أو إیجاب ما یتعلق بالملک من البیع والہبۃ والصدقۃ والاعتاق ومحل الملک ہو المال فلا تصح الوصیۃ بالمیتۃ والدم لأنہما لیسا بمال في حق أحد ۔ (۶/۴۵۷ ، کتاب الوصایا) (۲) ما في ’’ شرح کتاب السیر الکبیر ‘‘ : الآدمي محترم بعد موتہ علی ما کان علیہ في حیاتہ فکما یحرم التداوي بشيء من الآدمي الحي إکراماً لہ فکذلک لا یجوز التداوي بعظم المیت ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ کسر عظم المیت ککسر عظم الحيّ ‘‘ ۔ (۱/۹۲ ، باب دواء الجراحۃ)(فتاویٰ بینات: ۴/۳۵۱-۳۵۴)