محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
کسی کو اپنے معاملات میں وکیل بنانا مسئلہ(۴۹۶): حنفیہ کے نزدیک وکالت کی ابتداء ً دو قسمیں ہیں: (۱) وکالتِ عامہ! (۲) وکالتِ خاصہ! وکالتِ عامہ: کوئی شخص کسی دوسرے کو تمام کاموں میں وکیل بنادے، مثلاً یوں کہے کہ: ’’أنت وکیلي في کلّ شيء‘‘۔ تم ہر چیز میں میرے وکیل ہو۔وکالت کی یہ صورت عند الحنفیہ جائز ہے، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ اس عمومی وکالت کی وجہ سے وکیل کو، کون کون سے تصرفات کا حق حاصل ہوگا، اس بارے میں تین اقوال ہیں: ۱- پہلا قول یہ ہے کہ اس وکالت کی وجہ سے وکیل ہر قسم کے تصرف کا مالک بن جائے گا، یہاں تک کہ اسے یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ اس عمومی وکالت کی بنیاد پر مؤکل کی بیوی کو طلاق دے دے، البتہ اگر کسی دلیل سے معلوم ہوجائے کہ اس عمومی وکالت میں بیوی کو طلاق دینے (یا غلام کو آزاد کرنے) کی اجازت شامل نہیں ، تو پھر اس کی اجازت نہ ہوگی۔ ۲- دوسرا قول یہ ہے کہ طلاق، عتاق (غلام کو آزاد کرنے) اور مؤکل کی طرف ------------------------------ =جہالۃ یسیرۃ وہي جہالۃ النوع المحض کفرس صحت ۔۔۔۔۔۔۔ (وکذا إن سمی نوع الدابۃ کالفرس ، والبغل أو بین ثمن الدار ۔۔۔۔۔۔ فقال : ابتع لي ما رأیت جاز) ۔ (۳/۳۱۳ ،۳۱۴ ، باب الوکالۃ بالبیع والشراء)(مالی معاملات پر غرر کے اثرات:ص/۳۲۴) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : (وکلہ بشراء ثوب ہروي أو فرس أو بغل صح) بما یتحملہ حال الآمر ۔ ’’ زیلعي ‘‘ ۔ در مختار ۔ وفي الشامیۃ : قولہ : ’’ زیلعی ‘‘ عبارتہ لأن الوکیل قادر علی تحصیل مقصود المؤکل بأن ینظر في حالہ ۔ (۸/۲۱۹ ، باب الوکالۃ بالبیع والشراء)