محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بیع العرایا مسئلہ(۲۹۶): ’’ عرایا‘‘ یہ’’ عریۃ‘‘ کی جمع ہے،اور لغت عرب میں لفظ ’’عریۃ‘‘ درخت پر لگی ہوئی کھجور کوہبہ کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اصطلاح میں؛ واہب کا موہوب لہ کو اندازے سے خشک کھجور دے کر ، اس کے بدلے تازہ کھجوریں لینے کو ’’ بیع العرایا‘‘ کہا جاتا ہے(۱)، بیع العرایا کے جواز پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے ، کیوں کہ لوگوں کی ضروریات اور حاجات کے پیش نظر آنحضو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیع کو جائز قرار دیا ،احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ التعریفات الفقہیۃ مع قواعد الفقہ ‘‘ : العرایا - جمع عریۃ ، وہي من النخل کالمنیحۃ من الحیوان وہي النخلۃ التي یعطیہا مالکہا أي یہب ثمارہا لغیرہ من المحتاجین لیأکلہا عاما أو أکثر ، ویقال : ’’ نخلہم عرایا ‘‘ أي موہوبات یعروہا الناس أي یغشونہا ویأکلون ثمارہا لکرمہم ، وبیع العرایا أن یشتري المُعرِي أي الواہب من المُعرَی لہ ما علی العریۃ من الرطب تخمینا بقدرہ من التمر یأکلہ أہلہ رطبا ۔ (ص/۳۷۶ ، العرایا) (۲) ما في ’’ صحیح مسلم ‘‘ : عن جابر بن عبد اللّٰہ قال : ’’ نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المحاقلۃ والمزابنۃ والمخابرۃ ۔۔۔۔۔۔۔ إلا العرایا ‘‘ ۔ (۲/۱۰، باب النہي عن المحاقلۃ الخ) ما في ’’ صحیح مسلم ‘‘ : عن جابر بن عبد اللّٰہ قال : ’’ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ورخص في العرایا ‘‘ ۔ (۲/۱۱، باب النہي عن المحاقلۃ ۔ الخ) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن زید بن ثابت ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رخص بعد ذلک في بیع العریۃ بالرطب أو بالتمر ولم یرخص في غیرہ ‘‘ ۔ وفی روایۃ : رخص لصاحب العریۃ أن یبیعہا بخرصہا ۔ (۱/۲۹۱ ، باب بیع المزابنۃ) (غرر کی صورتیں:ص/۲۳۷)