محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
نفع کی ایک خاص مقدار، رب المال کے لیے متعین کرنا مسئلہ(۴۱۶): ایک آدمی دوسرے کو مضاربت کے طور پر ایک لاکھ روپئے دے کر کہے : مجھے ہر ماہ ہزار روپئے نفع دینا ضروری ہے، خواہ تم کو کچھ نفع ملے یا نہ ملے، شرعاً مضاربت کا یہ معاملہ درست نہیں ہے، کیوں کہ مضارب یا رب المال کا کسی خاص مقدار میں منافع کا اپنے لیے متعین کرنا، خواہ ماہانہ ہو یا سالانہ، مفسدِ عقد ہے، اس سے مضاربت فاسد ہوجائے گی۔(۱) ------------------------------ = سابقۃ الکلام ونحوہ ، وبہ أخذ الفقیہ أبو اللیث ۔ اہـ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وعن الإمام تخصیصہ بالمعاوضات ، ولا یلي العتق والتبرع ، وعلیہ الفتوی ۔ وکذا لو قال : طلقت امرأتک ووہبت ووقفت أرضک في الأصح لا یجوز ۔ اہـ ۔ وفي ’’ الذخیرۃ ‘‘ أنہ توکیل بالمعاوضات لا بالإعتاق والہبات ۔ وبہ یفتی ۔ اہـ ۔ وفي ’’ الخلاصۃ ‘‘ کما في ’’ البزازیۃ ‘‘ : والحاصل أن الوکیل وکالۃ عامۃ یملک کل شيء إلا الطلاق والعتاق والوقف والہبۃ والصدقۃ علی المفتی بہ ۔ (۸/۲۴۰ ، ۲۴۱ ، کتاب الوکالۃ ، بیروت ، الفتاوی الہندیۃ : ۵/۵۶۵ ، کتاب الوکالۃ ، الباب الأول وأما ألفاظہا ، فتاوی قاضي خان :۳/۱۴۷، کتاب الوکالۃ) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات:ص/۳۲۲) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : ومنہا أن یکون المشروط لکل واحد منہما من المضارب وربّ المال من الربح جزئً ا شائعاً نصفاً أو ثلثاً أو ربعاً فإن شرطا عدداً مقدراً بأن شرطا أن یکون لأحدہما مائۃ درہم من الربح أو أقل والباقي للآخر لا یجوز والمضاربۃ فاسدۃ ۔ =