محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
یونٹ ٹرسٹ آف انڈیامیں سرمایہ کاری مسئلہ(۳۳۹): حکومتِ ہند کی جانب سے منظور شدہ ایک عوامی ادارہ ’’یونٹ ٹرسٹ آف انڈیا‘‘ جو عوام کے بہبود کے لیے وجود میں آیا ہے، یہ ادارہ عوام سے سرمایہ لے کر اس کو مختلف کاروبار میں لگاتا ہے، اور جوبھی آمدنی ہوتی ہے، اس میں سے ہر سال اصل سرمایہ پر کچھ نفع طے کرکے سالانہ تقسیم کرتا ہے، ادارہ کے منتظمین سرمایہ کو جن کاروبار میں لگاتے ہیں ، چوں کہ ان میں سے اکثر کاروبار سودی ہوتے ہیں، اس لیے ’’یونٹ ٹرسٹ آف انڈیا ‘‘میں سرمایہ لگانا جائز نہیں ہے،اس صورت میں ادارہ کی حیثیت کھاتے داروں کے وکیل اور ایجنٹ کی ہے، اور سودی کاروبار اصالۃً ہو یا وکالۃً بہر صورت حرام ہے(۱) ، نیز چندہ کرکے ------------------------------ =(۱) ما في ’’ اعلاء السنن ‘‘ : قال علیہ الصلاۃ والسلام : ’’ کل قرض جرّ منفعۃ فہو رباً ‘‘ ۔ (۱۴/۵۶۶) وما في ’’ اعلاء السنن ‘‘ : وکل قرض شرط فیہ الزیادۃ فہو حرام بلا خلاف ، قال ابن المنذر : أجمعوا علی أن المسلف إذا شرط علی المستسلف زیادۃ أو ہدیۃ فأسلف علی ذلک أن أخذ الزیادۃ علی ذلک رباً ۔ وقد روي عن أبي بن کعب ، وابن عباس ، وابن مسعود أنہم نہوا عن قرض جرّ منفعۃ ۔ (۱۴/۵۶۶ ، رد المحتار : ۷/۲۹۸ ، الفتاوی الہندیۃ : ۴/۳۰۱) (۲) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : قال : المرابحۃ نقل ما ملکہ بالعقد بالثمن الأول مع زیادۃ ربح ۔ (۲/۵۴) (فتاوی حقانیہ :۶/۲۱۳) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : وأما عند اختلاف الجنس فلا بأس بالمرابحۃ ، حتی لو اشتری دیناراً بعشرۃ دراہم فباعہ بربح درہم ، أو ثوب بعینہ جاز ، لأن المرابحۃ بیع بالثمن الأول وزیادۃ ، ولو باع دیناراً بأحد عشر درہما أو بعشرۃ دراہم وثوب کان جائزاً ۔ (۴/۴۶۳)=