محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
متوقع آمدنی کی خرید وفروخت مسئلہ(۲۸۰): دو آدمیوں نے مل کر ایک گاڑی خریدی، اب ان میں سے ایک یہ کہے کہ سالانہ متوقع آمدنی کے بقدر رقم مجھ سے لے کر سالانہ منافع مجھ سے فروخت کردو، تو یہ عقد شرعاً جائز نہیں ، کیوں کہ خریدو فروخت کے لیے شریعت نے مبیع کی موجودگی ضروری قرار دی ہے، اور اس صورت میں چونکہ منافع نامعلوم اور معدوم ہیں، لہٰذا یہ عقد ؛بیع معدوم کے زمرہ میں شامل ہوکر باطل ہوگا۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ جامع الترمذي ‘‘ : عن عمرو بن شعیب رضي اللّٰہ تعالی عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ لا یحل سلف وبیع ، ولاشرطان في بیع ، ولا ربح ما لم یضمن ، ولا بیع ما لیس عندک ‘‘ ۔ قال أبوعیسی : وہذا حدیث حسن صحیح ، قال إسحاق بن منصور : قلت لأحمد : ما معنی : ’’ نہی عن سلف وبیع ‘‘ ۔ قال : أن یکون یقرضہ قرضاً ، ثم یبایعہ علیہ بیعاً یزداد علیہ ، ویحتمل أن یکون یسلف إلیہ في شيء فیقول : ’’ إن لم یتہیأ عندک فہو بیع علیک ‘‘ ۔ (۳/۳۷۲ ، البیوع ، ما جاء کراہۃ بیع ما لیس عندک ، رقم الحدیث :۱۲۳۴) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : (وبیع ما لیس فی ملکہ) ۔۔۔۔۔۔ (لبطلان بیع المعدوم) إذ من شرط المعقود علیہ أن یکون موجودًا مالا متقومًا مملوکًا في نفسہ ۔ (۷/۱۷۹،۱۸۰، کتاب البیوع ، مطلب الآدمي مکرّم شرعًا ولو کافرًا) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : فصل ؛ وأما الذي یرجع إلی المعقود علیہ فأنواع : منہا أن یکون موجودًا فلا ینعقد بیع المعدوم ۔ (۴/۳۲۶ ، البیوع ، فصل وأما الذي یرجع إلی المعقود علیہ) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : الفساد بالمعنی الأعم یثبت بأسباب : منہا الجہالۃ المفضیۃ إلی المنازعۃ في المبیع أو الثمن ، منہا عدم الوجود ۔ (۶/۱۱۳، کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد) (فتاوی حقانیہ:۶/۸۲)