محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
سفارشات پر اجرت مسئلہ(۴۵۳): کسی کی سفارش پر اجرت لینا جائز نہیں ہے(۱)، نیز لی ہوئی اجرت کسی نیک کام میں استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے، بلکہ اس مال کو اصل مالک کی طرف لوٹانا ضروری ہے، اگر وہ معلوم ہو ، ورنہ صاحبِ مال کی طرف سے صدقہ کی نیت کرکے؛ صدقہ کردے۔ (۲) ------------------------------ =ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ولو وہب المستأجر من الآجر ۔۔۔۔۔ جاز ۔۔۔۔۔ وکذا في محیط السرخسي ۔ (۴/۳۷۷ ، کتاب الہبۃ ، الباب الثاني فیما یجوز من الہبۃ) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ تفسیر الکشّاف ‘‘ : {من یشفع شفعۃ حسنۃ یکن لہ نصیب منہا} ۔ الشفاعۃ الحسنۃ ؛ ہي التي روعی بہا حق مسلم ، ودفع بہا شر أو جلب إلیہ خیر وابتغی بہا وجہ اللّٰہ ولم توخذ علیہا رشوۃ وکانت فی أمر جائز لا فی حد من حدود اللّٰہ ولا فی حق من الحقوق ۔۔۔۔۔ وعن مسروق أنہ شفع شفاعۃ فأہدی إلیہ المشفوع جاریۃ فغضب وردہا ۔ (۱/۵۳۲) ما في ’’ بذل المجہود في حل سنن أبي داود ‘‘ : عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہ ، عن النبي ﷺ قال : ’’ من شفع لأخیہ شفاعۃ فاہدی لہ ہدیۃ علیہا فقبلہا ، فقد أتی بابا عظیماً من أبواب الربوا ‘‘ ۔ وفي حاشیتہ : وذلک لأن الشفاعۃ الحسنۃ مندوب إلیہا ، وقد تکون واجبۃ فأخذ الہدیۃ علیہا یضیع أجرہا کما أن الربوا یضیع الحلال ۔ (۱۱/۲۶۸ ، کتاب البیوع ، باب فی الہدیۃ بقضاء الحاجۃ) (۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردّہ علیہم ، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہ ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ ۔ (۷/۳۰۱) (فتاوی محمودیہ : ۱۸/۴۵۹،کراچی)