محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بینک کی ملازمت مسئلہ(۴۴۰): بینک کی ملازمت کے سلسلے میں فقیہ عصر، شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیۃ فرماتے ہیں: ’’ در اصل بینک کی ملازمت ناجائز ہونے کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں، ایک وجہ یہ ہے کہ ملازمت میں سود وغیرہ کے ناجائز معاملات میں اِعانت ہے، دوسرے یہ کہ تنخواہ حرام مال سے ملنے کا احتمال ہے، ان میں سے پہلی وجہ یعنی حرام کاموں میں مدد کا جہاں تک تعلق ہے، شریعت میں مدد کے مختلف درجے ہیں، ہر درجہ حرام نہیں، بلکہ صرف وہ مدد ناجائز ہے جو براہِ راست حرام کام میں ہو، مثلاً سودی معاملہ کرنا، سود کا معاہدہ لکھنا، سود کی رقم وصول کرنا وغیرہ(۱)، لیکن اگر براہِ راست سودی معاملے میں انسان کو ملوّث نہ ہونا پڑے، بلکہ اس کے کام کی نوعیت ایسی ہو جیسے ڈرائیور، چپراسی، یا جائز ریسرچ وغیرہ تو اس میں چونکہ براہِ راست مدد نہیں ہے، اس لیے اس کی گنجائش ہے،جہاں تک حرام مال سے تنخواہ ملنے کا تعلق ہے، اس کے بارے میں شریعت کا اُصول یہ ہے کہ اگر ایک مال حرام اور حلال سے مخلوط ہو اور حرام مال زیادہ ہو ، تواس سے تنخواہ یا ہدیہ لینا جائز نہیں، لیکن اگر حرام ------------------------------ =ما في ’’ مشکوۃ المصابیح ‘‘ : قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہ ﷺ : ’’ الغناء ینبت النفاق في القلب کما ینبت الماء الزرع ‘‘ ۔ (ص/۴۱۱) ما في ’’ نیل الأوطار ‘‘ : وقال : ’’ استماع الملاہي معصیۃ ، والجلوس علیہا فسق ، والتلذذ بہا کفر ‘‘ ۔ (۸/۱۰۳) (فتاویٰ عثمانی :۳/۳۶۶، کتاب الاجارۃ) ما في ’’ جمہرۃ القواعد الفقہیۃ ‘‘ : ’’ الإعانۃ علی محظور محظور ‘‘ ۔ (۲/۶۴۴ ، قاعدۃ : ۲۰۳)=