محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا مسئلہ(۶۰): شریعت کا حکم یہ ہے کہ آدمی جس جگہ وفات پائے اسے وہیں دفن کردیا جائے، اگر چہ اس نے کسی اور بستی میں دفن کردینے کی وصیت کی ہو، کیوں کہ اس طرح کی وصیت باطل ہے، نیز میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا مکروہِ تحریمی ہے، اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے، اگر کہیں کسی فقیہ نے اس کی اجازت دی بھی ہو، تو وہ ایک دو میل کی قید کے ساتھ مقید ہے، اس لیے جس جگہ آدمی کا انتقال ہوجائے،اسے وہیں دفن کردینا چاہیے، بعض لوگ میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے جواز کو ثابت کرنے کے لیے حضرت یعقوب ویوسف علیہما السلام کے مصر سے شام منتقل کیے جانے کے واقعہ سے استدلال کرتے ہیں ، ان کا یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ یہ شریعتِ سابقہ کا واقعہ ہے، اور شریعتِ سابقہ کی حجیت کے لیے یہ شرط ہے کہ ہماری شریعت میں اُس کے خلاف حکم موجود نہ ہو، حالانکہ زیر بحث مسئلے میں شریعتِ اسلامی کا حکم یہ ہے کہ میت کو جلد از جلد دفن کیا جائے، جمع عظیم کے انتظار کے لیے نماز جنازہ میں تاخیر نہ کی جائے،یہاں تک کہ اوقاتِ مکروہہ میں بھی نمازِ جنازہ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا، اور ظاہر ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں اس حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : أوصیٰ بأن یصلي علیہ فلان أو یحمل بعد موتہ الی بلد آخر ۔۔۔۔۔۔ فہي باطلۃ ۔ الدر المختار ۔ (۱۰/۲۹۷ ، کتاب الوصایا) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : قولہ : (ولابأس بنقلہ قبل دفنہ) قیل مطلقاً ، وقیل إلی ما دون =