محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
زائد انگلی کٹوانا مسئلہ(۶۳۵):بہت سے لوگوں کے بدن میں زائد انگلی رہتی ہے، جس کو وہ بذریعہ آپریشن کٹواتے ہیں ،اگر اس کے کٹوانے میں غالب گمان ہلاکت کا ہو، تو اس کو نہ کٹوائے، اور اگر غالب گمان نجات وعافیت کا ہو، تو اس زائد انگلی کو کٹوا سکتے ہیں۔(۱)سرجری وآپریشن میں مریض کا عضو کاٹنا مسئلہ(۶۳۶): دواخانوں اور ہسپتالوں میں مریض کے سرجری یا آپریشن میں اس کے کسی عضو کو کاٹ دیتے ہیں، اگر کاٹنے کی وجہ سے مریض کے ہلاک ہونے کا خوف ہو، تو قطعِ عضو (عضو کو کاٹنا)حرام ہے، اور اگر عضو کے نہ کاٹنے کی وجہ سے ہلاک ہونے کا خوف ہو، تو پھر عضو کو کاٹنا مباح ہے، اور اعتدال (نارمل ہونے)کی حالت میں مکروہِ تحریمی ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : إذا أراد الرجل أن یقطع اصبعاً زائدۃ أو شیئاً آخر ، قال نصیر رحمہ اللّٰہ تعالی : إن کان الغالب علی من قطع مثل ذلک الہلاک فإنہ لا یفعل وإن کان الغالب ہو النجاۃ ، فہو سعۃ من ذلک ۔ (۵/۳۶۰ ، کتاب الکراہیۃ ، الباب الحادي والعشرون فیما یسع من جراحات بني آدم) (فتاوی محمودیہ : ۱۸/۳۳۴) ما في ’’ أحکام الجراحۃ الطبیۃ ‘‘ : ویشترط لجواز فعل القطع في ہذہ الأحوال أن لا یؤدي إلی ضرر أعظم من الضرر الموجودۃ فی الألم فإذا کان القطع یفضي إلی ذلک فإنہ لا یجوز فعلہ للقاعدۃ الشرعیۃ : الضرر لا یزال بالضرر ۔ (ص/۳۱۱ ، ہل یجوز قطع العصب؟) الحجۃ علی ما قلنا : (۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {ولا تلقوا بأیدیکم إلی التہلکۃ} ۔ (سورۃ البقرۃ :۱۹۵)=