محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
قربانی کی کھال کی رقم رفاہی کاموں میں مسئلہ(۸۵): قربانی کی کھالیں فروخت کرنے کے بعد ان کا حکم زکوٰۃ کی رقم کا ہے، جس کی تملیک ضروری ہے، اور بغیر تملیک کے رفاہی کاموں میں اس کا خرچ کرنا درست نہیں، لہٰذا قربانی کی کھالیں ایسے اداروں اور جماعتوں کو دینا چاہیے ، جو شرعی اصولوں کے مطابق ان کو صحیح جگہ خرچ کرتے ہیں ۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ المغني والشرح الکبیر‘‘ : روي عن ابن عمر أنہ یبیع الجلد ویتصدق بثمنہ ۔(۱۱/۱۱۲) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : فإن بیع اللحم أو الجلد بہ أي بمستہلک أو بدراہم تصدق بثمنہ ۔ (۹/۳۹۸) ما في’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ویتصدق بجلدہا أو یعمل منہ نحو غربال وجراب ، ولا بأس بأن یشتري بہ ما ینتفع بعینہ مع بقائہ استحساناً ، ولا یشتري بہ ما لا ینتفع بہ إلا بعد الاستہلاک، نحو اللحم والطعام ، ولا یبیعہ بالدراہم لینفق الدراہم علی نفسہ وعیالہ ، واللحم بمنزلۃ الجلد في الصحیح ، حتی لا یبیعہ بما لا ینتفع بہ إلا بعد الاستہلاک ، ولو باعہا بالدراہم لیتصدق بہا جاز ، لأنہ قربۃ کالتصدق ۔ (۵/۳۰۱ ، کذا في البحر الرائق : ۸/۳۲۷) ما في’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : وإنما لم یحل البیع بما یستہلک ، لقولہ علیہ السلام : ’’ من باع جلد أضحیۃ فلا أضحیۃ لہ ‘‘ ۔ فإن باع نفذ البیع عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللہ تعالی ، ووجب علیہ التصدق بثمنہ ۔ (۵/۱۰۴ ، أضحیۃ) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {إنما الصدقٰت للفقراء والمسٰکین ۔ الخ} ۔ (سورۃ التوبۃ : ۶۰) ما في ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : إن الصدقۃ تقتضي تملیکاً ، وقال : إذ شرط الصدقۃ وقوع الملک للمتصدق علیہ ۔ (۳/۱۶۱) ما في ’’ فتح القدیر ‘‘ : ولا یبنی بہا (الزکاۃ) مسجد ، ولا یکفن بہا میت لإنعدام التملیک ، وہو الرکن ، فإن اللہ تعالی سماہا صدقۃ ، وحقیقۃ الصدقۃ تملیک المال ۔ (۲/۲۷۲)