محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
عاقلہ بالغہ کا نکاح غیر کفوکے ساتھ زبردستی کردینا مسئلہ(۱۳۲): عاقلہ بالغہ لڑکی کانکاح اس کی رضامندی کے بغیر کفو یا غیر کفو کے ساتھ زبردستی کردینا درست نہیںہے۔(۱)مغویہ کے ساتھ غیرِ کفو شخص کا نکاح مسئلہ(۱۳۳): اگر غیرِ کفو شخص نے کسی لڑکی کو اِغوا کرکے اس سے نکاح کرلیا، تو مفتیٰ بہ قول کے مطابق نکاح صحیح نہیں ہوگا(۲)، البتہ اگر لڑکی کے اولیاء اس نکاح سے رضامند ہیں، یا اس کا کوئی ولی نہیں ہے، تو یہ نکاح صحیح ودرست ہوگا۔(۳) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : ولا تجبر البالغۃ البکر علی النکاح ، لإنقطاع الولایۃ بالبلوغ ۔ (۴/۱۱۸، کتاب النکاح ، باب الولي) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : ولا یجوز للولي إجبار البکر البالغۃ علی النکاح خلافاً للشافعی ۔ (۳/۳۱۴ ، البحر الرائق :۳/۱۹۲، باب الأولیاء والأکفاء) (فتاوی محمودیہ: ۱۱/۵۵۴، کراچی، کتاب الفتاوی: ۴/۳۶۷، ۳۶۸) الحجۃ علی ما قلنا : (۲) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : ویفتی في غیر الکفؤ (بعدم الجواز أصلاً) وہو المختار للفتوی لفساد الزمان ۔ (در مختار) ۔ وفي الشامیۃ : قال الشامي رحمہ اللہ : وہذا إذا کان لہا ولي لم یرض بہ قبل العقد فلا یفید الرضا بعدہ ، وأما إذا لم یکن لہا ولي فہو صحیح نافذ مطلقاً اتفاقاً ۔ (۴/۱۱۶، کتاب النکاح ، باب الولي) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وروی الحسن عن أبي حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی أن النکاح لا ینعقد، وبہ أخذ کثیر من مشایخنا رحمہم اللہ تعالی ۔ کذا في المحیط ۔ والمختار في زماننا=