محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
جھینگے کا شرعی حکم مسئلہ(۵۹۵):جھینگے کی کراہت وعدم کراہت میں علماء کے مابین اختلاف ہے، راجح قول کے بموجب وہ جنسِ سمک میں سے ہے، لہٰذا بلاکراہت جائز ہے، کہ ہر چیز میں اصل اباحت ہے(۱)، نیز ماہیات کے ماہر علامہ دمیری اور دیگر ائمہ رحمہم اللہ نے اپنی اپنی کتب میں اس کو جنسِ سمک میں سے لکھا ہے (۲)، اسی طرح حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ’’امداد الفتاوی‘‘ میں اس کو جائز قراردیا ہے، لیکن پھر بھی احوط یہ ہے کہ بچا جائے(۳)، اور اس کی خریدو فروخت میں بسببِ اختلاف کوئی کراہت نہیں ہے۔ ------------------------------ =ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت : ’’ کان النبي ﷺ یحب التیمن ما استطاع في طہورہ ، وتنعّلہ ، وترجّلہ ، وکان قال بواسط قبل ہذا في شأنہ کلہ ‘‘ ۔ (۲/۸۱۰) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : ویستحب الأکل والشرب بالیمین ، والأکل مما یلیہ من موقع واحد ، إلا أن یکون طبقاً فیہ ألوان الثمار ، فیأکل من حیث شاء ، لأنہ ألوان ، ویستحب الأکل بثلاث أصابع ، لما ثبت عن النبي ﷺ ۔ (۴/۲۶۲۲) والحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {ہو الذي خلق لکم ما في الأرض جمیعًا} ۔ (البقرۃ :۲۹) ما في ’’ التفسیر المنیر ‘‘ : شبہت آیۃ {ہو الذي خلق لکم ما في الأرض} علی القدرۃ الإلٰہیۃ المہیئۃ للأرض من أجل نفع الإنسان ، وتحقیق مصلحتہ ، ورعایۃ حاجۃ الخلق ۔۔۔۔۔۔۔۔ فقد استدل بہا علماء الأصول أیضاً علی أنہ ’’ الأصل في الأشیاء الإباحۃ ، حتی یأتي دلیل الحصر ‘‘ ۔ أي أن الأصل إباحۃ الانتفاع بکل ما خلق اللّٰہ في الأرض ، حتی یأتي دلیل المنع ، فلیس لمخلوق حق في تحریم شيء أباحہ اللّٰہ إلا بإذنہ ۔ (۱/۱۳۰،۱۳۱)=