محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
تجارت میں قرض کا مال دے کر نفع کی تعیین مسئلہ(۴۲۸): ایک دوکاندار کے پاس نقد رقم بھی ہے، دوکان میں سامان تجارت بھی رکھا ہوا ہے، اور کچھ ادھار کھاتے بھی ہیں، اس سے کوئی شخص کہتا ہے کہ آپ ایک سال کے لیے مجھ سے ایک لاکھ روپئے لے لیں، اس سے تجارت کریں، اور پھر سال بھر کے بعد جو نفع ہو، اس میں سے اتنے فیصد مجھے دیدیں، شرعاً یہ صورت درست نہیں ہے، کیوں کہ فقہائے کرام نے قرضہ جات اور غائب اموال میں شرکت کو ناجائز فرمایا ہے(۱) ، البتہ شریعت کے ایک اصول پر غور کرنے سے مذکورہ صورت کا جواز معلوم ہوتا ہے، وہ اصول یہ ہے کہ؛ بعض مرتبہ کوئی چیز قصداً تو ناجائز ہوتی ہے، مگر ضمناً وتبعاً جائزہوتی ہے۔ (۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : ومنہا : أن یکون رأس مال الشرکۃ عیناً حاضراً لا دینا ولا مالاً غائباً ، فإن کان لا تجوز عنانا کانت أو مفاوضۃً ، لأن المقصود من الشرکۃ الربح وذلک بواسطۃ التصرف ، ولا یمکن في الدین ولا المال الغائب فلا یحصل المقصود ۔ (۵/۷۹ ، المغنی : ۵/۱۲۷) (۲) ما في ’’ الأشباہ والنظائر لإبن نجیم الحنفي ‘‘ : الرابعۃ : یفتقر في التوابع ما لا یفتقر في غیرہا ، وقریب منہا یفتقر في الشيء ضمناً ما لا یفتقر قصداً ۔ (۱/۴۵ ، التابع تابعٌ) ما في ’’ قواعد الفقہ ‘‘ : الأصل أنہ قد یثبت الشيء تبعاً وحکما وإن کان قد یبطل قصداً ۔ (ص/۱۶) ما في ’’ المعاییر الشرعیۃ ‘‘ : لا تجوز أن تکون الدیون وحدہا حصۃ في رأس مال الشرکۃ إلا في الحالات التی تکون فیہا الدیون تابعۃ لغیرہا مما یصح جعلہ رأس مال الشرکۃ مثل تقدیم مصنع رأس مال الشرکۃ مما لہ ومما علیہ ۔ (ص/۲۰۸ ، بحوالہ مالی معاملات پر غرر کے اثرات : ص ۱۹۰) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات : ص/۱۸۹)