محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
صیغۂ حال سے نکاح مسئلہ(۱۲۱): اگر دولہا بوقتِ نکاح ’’ میں نے قبول کیا ‘‘ کہنے کے بجائے ، ’’مجھے قبول ہے‘‘ کہے، یعنی صیغۂ حال استعمال کرے، تب بھی نکاح درست ہوجائے گا۔(۱)’’ قَبِلْتُ‘‘ کے بجائے ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ‘‘ کہنا مسئلہ(۱۲۲): اگر دولہا بوقتِ عقدِ نکاح بجائے’’ قَبِلْتُ وَنَکَحْتُ‘‘ کے صرف ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ‘‘کہے، تو اس سے بھی نکاح منعقد ہوگا، جب کہ نکاح کرنے کا ارادہ ہو، مگر بہتر یہ ہے کہ قبول کے لیے صریح الفاظ مثلاً: ’’ قَبِلْتُ ، نَکَحْتُ ، تَزَوَّجْتُ ‘‘، وغیرہ استعمال کرے۔(۲) ------------------------------ =فلم ینعقد أصلاً ۔ قال : فعلی ہذا یفرق بین فاسدہ وباطلہ فی العدۃ ، ۔۔۔۔۔ والحاصل أنہ لا فرق بینہما في غیر العدۃ ۔ (۴/۲۰۲ ،۲۰۳ ، النکاح ، مطلب في النکاح الفاسد ، دیوبند ، بدائع الصنائع :۳/۶۱۵، فصل في النکاح الفاسد)(فتاوی محمودیہ: ۱۱/۲۹-۳۱،کراچی، احسن الفتاوی: ۵/۶۰-۶۴) والحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ینعقد بالإیجاب والقبول وضعاً للمضي أو وضع أحدہما للمضی والآخر بغیرہ مستقبلا کان کالأمر أو حالاً کالمضارع ۔ (۱/۲۷۰، الباب الثاني) ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : (وینعقد بإیجاب وقبول وضعاً للمضي) وینعقد أیضاً (بما) أي بلفظین (وضع أحدہما لہ) للمضي (والآخر للاستقبال) أو للحال ۔ (۴/۶۰، البحر الرائق :۳/۱۴۷، کتاب النکاح ، فتح القدیر:۳/۱۹۱) (امداد الاحکام: ۳/۲۳۰، قاموس الفقہ: ۵/۲۲۶) الحجۃ علی ما قلنا : (۲) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : امرأۃ قالت لرجل : زوجت نفسي منک ، فقال الرجل :=