محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
قرض پر نفع مسئلہ(۳۳۰): اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو کسی مشین یا اور کوئی چیز کے خریدنے کے لیے قرض دے ، اور یہ شرط لگائے کہ تم اِس مشین سے جتنا کماؤگے اس کا ایک فیصدمیرا ہوگا،تویہ قرض کو باقی رکھتے ہوئے منافع پر کمیشن لینا ہے، جو صریح سود ہے، اور اس کی حرمت قرآن وحدیث سے ثابت ہے(۱)، البتہ اگر یہ شخص خود مشین خرید کر کرایہ پر کسی کو دیدے، تو اُس کے لیے اِس کرایہ کا لینا درست ہوگا۔(۲) ------------------------------ =ما في ’’ بذل المجہود ‘‘ : وقیل : ہو أن تقرضہ ثم تبیع منہ شیئاً بأکثر من قیمتہ ، فإنہ حرام، لأنہ قرضٌ جرّ نفعاً ، أو المراد السلم ، بأن سلف إلیہ في شيء فیقول : ’’ إن لم یتہیأ عندک فہو بیع علیک ‘‘ ۔ (۱۱/۳۳۴ ، کتاب البیوع ، باب في الرجل یبیع ما لیس عندہ ، کذا في مرقاۃ المفاتیح : ۶/۷۹ ، باب المنہي عنہا من البیوع ، رقم الحدیث : ۲۸۷۰) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وفي الخلاصۃ : القرض بالشرط حرام ، والشرط لغو ، بأن یقرض علی أن یکتب بہ إلی بلد کذا لیوفي دینہ ، وفي الأشباہ : ’’ کل قرض جر نفعاً حرام ‘‘ ۔ (۷/۳۹۸ ، کتاب البیوع ، مطلب کلُّ قرض جر نفعاً حرام) ما في ’’ النہر الفائق ‘‘ : (لا تأکلوا) ۔۔۔۔۔۔۔ أي الزائد في القرض ، وفي بیع الأموال الربوبیۃ عند بیع بعضہا بجنسہ (أحل اللّٰہ البیع وحرم الربا) أي حرم أن یزداد في القرض علی قدر المدفوع ۔ (۳/۴۶۹ ، کتاب البیوع ، باب الربا) (جدید مسائل کا حل :ص/۴۲۶) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘: {أحل اللّٰہ البیع وحرم الربوا} ۔ (سورۃ البقرۃ : ۲۵۷) ما في ’’ التفسیر المنیر ‘‘ : ومن عاد إلی أخذ الربا بعد تحریمہ فقد استوجب العقوبۃ ، ۔۔۔۔۔۔ حرم اللّٰہ الربا في القرآن کتحریم الخمر ۔ (۲/۹۶ ۔ ۱۰۰) ما في ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : قال أبوبکر : ۔۔۔۔۔۔۔ إن لم تذروا ما بقي من الربا بعد نزول الأمر بترکہ فأذنوا بحرب من اللّٰہ ورسولہ ۔ (۱/۵۷۱ ، باب الربا)=