محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
کاروبار کے کسی ایک حصے میں دوسرے کو شریک کرنا مسئلہ(۳۸۵): اگر کسی شخص کا کاروبار وسیع پیمانے پر ہے، جس کے مختلف حصے ہیں، مثلاً؛ جنرل اسٹور، میڈیکل اسٹور، کرانہ اسٹور وغیرہ، اور وہ ان میں سے کسی ایک حصہ میں کسی دوسرے آدمی کے ساتھ عقدِ شرکت کرنا چاہے، تو اس عقد میں کوئی قباحت نہیں ہے، کیوں کہ شریعت میں اس سلسلے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، جس طرح پورے کاروبار میں کسی کو شریک کیا جاسکتا ہے ، اسی طرح اس کے کسی ایک حصہ میں بھی شریک کیا جاسکتا ہے۔ (۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {وإن کثیرا من الخلطآء لیبغي بعضہم علی بعض إلا الذین اٰمنوا وعملوا الصّٰلحٰت وقلیل ما ہم} ۔ (سورۃ صٓ:۲۴) ما في ’’ المبسوط للسرخسي ‘‘ : الأصل في جواز الشرکۃ ما روي أن سائب بن شریک جاء إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال : أتعرفني ؟ فقال : صلوات اللّٰہ علیہ وسلامہ علیہ ، وکیف لا أعرفک وکنت شریکي وکنت خیر شریک لا تداري ولا تماري أي لا تداجي ولا تخاصم ، وبعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والناس یفعلون ذلک فأقرہم علیہ ، وقد تعاملہ الناس من بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلی یومنا ہذا من غیر نکیر ۔ (۱۱/۱۶۲) ما في ’’ فتاوی النوازل ‘‘ : الشرکۃ : ہي جائزۃ لأن النبي ﷺ بعث والناس یتعاملون بہا فقررہ النبي ﷺ ۔ (ص/۳۱۶) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : والمسلمون أجمعوا علی جواز الشرکۃ فی الجملۃ۔ (۵/۳۸۷۷) (شرکت ومضاربت عصر حاضر میں :ص/۲۹۱)