محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بیعِ استصناع منسوخ کرنا مسئلہ(۲۴۱): بیعِ استصناع منعقد ہوجانے کے بعد کسی شرعی و شدید عذر کے بغیر فریقین میں سے کسی کو فسخ کرنے کا حق نہ ہوگا، لہٰذا آرڈر کے بعد کا ریگر پر لازم ہے کہ وہ طے شدہ شرائط کے مطابق مال تیار کرے، اور آرڈر دہندہ کے لیے درمیان میں معاملہ ختم کرنے کا اختیار نہ ہوگا۔(۱) ------------------------------ =ما في ’’ الہدایۃ شرح البدایۃ ‘‘ : السلم عقد مشروع بالکتاب وہو آیۃ المداینۃ ، فقد قال ابن عباس : ’’ أشہد أن اللہ تعالی أحل السلف المضمون وأنزل فیہا أطول آیۃ فی کتابہ ‘‘ ، وتلا قولہ تعالی : {یٰٓاَیہا الذین اٰمنوآ إذا تداینتم بدین الی اجلٍ مسمًّی فاکتبوہ} ۔ الآیۃ ، وبالسنۃ ہو ما روی أنہ علیہ السلام : ’’ نہی عن بیع ما لیس عند الإنسان ورخص فی السلم‘‘، والقیاس وإن کان یأباہ ولکنا ترکناہ بما رویناہ ، ووجہ القیاس أنہ بیع المعدوم ، إذ المبیع ہو المسلم فیہ ۔ (۳/۷۵ ، ۷۶ ، باب السلم) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات: ص/ ۲۹،۳۰، محمود الفتاوی: ۲/۴۹۲، انعام الباری: ۶/۴۲۶، کتاب السلم) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : فیجبر الصانع علی عملہ ولا یرجع الأمر عنہ ۔ (۷/۳۶۶ ، مطلب فی الاستصناع ، دار الکتاب دیوبند) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : وعن أبی یوسف أنہ لا خیار لہما ، أما الصانع فلما ذکرنا ، وأما المستصنع فلأن فی إثبات الخیار لہ اضرارًا بالصانع لأنہ لا یشتریہ غیرہ بمثلہ ۔ (۳/۸۵ ، کتاب البیوع ، باب السلم ، قبیل مسائل منثورۃ) ما في ’’ المعاملات المالیۃ المعاصرۃ ‘‘ : الخلاصۃ : یتلخص ہذا البحث في أن عقد الاستصناع عقد مستقل محلہ العمل ، والعین الموصوفۃ فی الذمۃ ، ولذلک لہ شروطہ الخاصۃ وخصائصہ وآثارہ ، وأن من أہم آثارہ التی رجحناہا ہی ثبوت الملک للمستصنع في الشيء المستصنع ، وثبوت الملک في الثمن المتفق علیہ للصانع ، ولزوم قیام الصانع=