محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
پہلی بیوی کی وجہ سے فسخِ نکاح کا مطالبہ مسئلہ(۱۹۴): اگر کوئی شخص یہ بتائے بغیر کہ اس کی ایک بیوی پہلے سے موجود ہے، کسی عورت سے نکاح کرلے، تو اُس کا یہ نکاح صحیح ہے، اور دوسری بیوی کو یہ معلوم ہونے پر کہ اس شخص کی ایک بیوی پہلے سے موجود ہے، فسخ نکاح کے مطالبہ کاحق حاصل نہیں ہوگا(۱)، البتہ اگر نباہ ممکن نہ ہو، تو وہ طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے، اور شوہر طلاق نہ دے، تو خلع لے سکتی ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {فانکحوا ما طاب لکم من النسآء مثنٰی وثلٰث وربٰع} ۔ (سورۃ النساء :۳) ما في ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : وأما قولہ تعالی : {مثنی وثلٰث وربٰع} ۔ فإنہ إباحۃ للثنتین إن شاء ، وللثلاث إن شاء ، وللرباع إن شاء علی أنہ مخیر فی أن یجمع فی ہذہ الأعداد من شاء ۔ (۲/۶۹، تزویج الصغار، سورۃ النساء) (۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {ولا یحل لکم أن تأخذوا ممآ اٰتیتموہنّ شیئاً إلا أن یخافا ألا یقیما حدود اللہ ، فإن خفتم ألا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیہما فیما افتدت بہ} ۔ (سورۃ البقرۃ :۲۲۹) ما في ’’ فتح الباری ‘‘ : عن ابن عباس أن امرأۃ ثابت بن قیس أتت النبي ﷺ فقالت : یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم للہ ! ثابت بن قیس ما أعتب علیہ فی خلق ولا دین ، ولکنی أکرہ الکفر فی الإسلام ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ أتردین علیہ حدیقتہ ؟ ‘‘ ۔ قالت : نعم ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ اقبل الحدیقۃ وطلقہا تطلیقۃ ‘‘ ۔ (۹/۳۵۲ ، باب الخلع ، مکتبہ شیخ الہند دیوبند) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : وإذا تشاقّ الزوجان وخافا أن لا یقیما حدود اللہ فلا بأس بأن تفتدی نفسہا منہ بمال یخلعہا بہ ۔ (۲/۴۰۴ ، باب الخلع)