محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
قرض کے بدلے قرض کی بیع مسئلہ(۲۹۳): دَین کو دَین کے بدلے غیر مقروض کے ہاتھ فروخت کرنے کا نام ’’ بیع الکائی بالکائی ‘‘ ہے(۱)، ائمۂ اربعہ اور جمہور فقہائے کرام کے مذہب کے مطابق یہ بیع ناجائز ہے۔ مثلاً؛ زید کو بکر سے ایک مَن چاول ایک ماہ بعد لینا ہے، اب زید عمرو سے کہے کہ مجھے بکر سے جو چاول ایک ماہ بعد لینا ہے، میں تمہیں وہ چاول ایک ہزار روپئے کے بدلے فروخت کرتا ہوں، اور تم یہ رقم مجھے دو ماہ بعد دے دینا۔ بیع کی اس صورت میں مبیع اور ثمن دونوں اُدھار ہیں، اسے بیع الکائی بالکائی کہا جاتا ہے، جو شرعاً جائز نہیں ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۲) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : وبیع الدین نسیئۃ : ہو ما یعرف ببیع الکائي بالکائي أي الدین بالدین ۔ (۵/۳۴۰۴ ، بیع الدین نسیئۃ) (۳) ما في ’’ سنن الدار قطني ‘‘ : عن ابن عمر قال : ’’ إن النبي ﷺ نہی عن بیع الکائی بالکائی ‘‘ ۔ (۳/۷۱ ،۷۲ ، بیروت) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : وہو بیع ممنوع شرعًا ؛ لأن النبي ﷺ نہی عن بیع الکائي بالکائي ، وقد قیل : أجمع الناس علی أنہ لا یجوز بیع دین بدین ، سواء أکان البیع للمدین أم لغیر المدین ۔ (۵/۳۴۰۴ ، بیع الدین نسیئۃ) (غرر کی صورتیں:ص/۳۱۸)