محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
راکھی کی خرید وفروخت مسئلہ(۳۱۸): راکھی بیچنا گویا کافروں کی رُسومِ شرکیہ میں تعاون کرنا ہے، اور ہم کو تعاون علی الاثم (گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد) سے منع کیا گیا ہے، اس لیے اس سے بچنا چاہیے، ورنہ بیچنے والے سخت گنہگار ہوں گے۔(۱)جانور کے حرام اعضا کی خریدو فروخت مسئلہ(۳۱۹): بعض لوگ جانوروں کے حرام اعضا مثلاً؛ شرمگاہ، مثانہ، پتہ، خصیتین وغیرہ کی خریدو فروخت کرتے ہیں، اگر ان کی خریدو فروخت کھانے کے لیے کی جاتی ہے، تو وہ حرام ہے (۲)،کیوں کہ جس کا کھانا حرام اس کا بیچنا بھی حرام ہے(۳)، اور اگر کسی اور مقصد کے لیے خریدوفروخت کی جاتی ہے، تو وہ ممنوع نہیں ہوگا، جیسے دوا وعلا ج وغیرہ کے لیے فروخت کرنا اور خریدنا، مگر تداوی بالمحرم(حرام چیزوں سے علاج) کے سلسلے میں علمائے احناف کے اقوال مختلف فیہ ہیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مشہور قول یہی ہے کہ حرام اشیاء سے علاج درست نہیں(۴)، امام ابویوسف اور اکثر مشائخ حنفیہ رحمہم اللہ نے حرام سے علاج کرنے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے، بشرطیکہ ماہر ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : قولہ تعالی : {ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان} ۔ نہی عن معاونۃ غیرنا علی معاصي اللّٰہ تعالی ۔ (۲/۳۸۱) ما في ’’ روح المعاني ‘‘ : فیعم النہي کل ما ہو من مقولۃ الظلم والمعاصي ویندرج فیہ عن التعاون علی الاعتداء والانتقام ۔ (۴/۸۵ ، سورۃ المائدۃ :۳)=