محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
جوازِ سرجری کی شرط مسئلہ(۶۱۲): سرجری بہت سارے خطرات پر مشتمل ہے، مثلاً؛ موت، ہلاکت اور تلفِ عضو وغیرہ، اسی لیے شریعتِ اسلامیہ میں سرجری کے جواز کا حکم کچھ شرطوں کے ساتھ مقید ہے(۱)، ان شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ سرجری کی وجہ سے مریض کو ایسا ضرر اور نقصان نہ پہنچے، جو اس کے مرض سے بڑھا ہوا ہو(۲)، ورنہ سرجری کرنا حرام ہوگا(۳)،کیوں کہ شریعتِ اسلامیہ کسی ضررکو اسی کے مثل ضرر کو اختیار کرکے دور کرنے اجازت نہیں دیتی ہے۔(۴) ------------------------------ =ما في ’’ فتح القدیر‘‘ : والانتفاع بہ لأن الآدمي مکرم غیر مبتذل فلا یجوز أن یکون شيء من أجزائہ مہاناً ومبتذلاً وفي بیعہ إہانۃ لہ ، وکذا في امتہانہ بالانتفاع ۔ (۶/۳۹۱ ، البیع الفاسد) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : والآدمی بجمیع أجزائہ محترم مکرم ، ولیس من الکرامۃ والاحترام ابتذالہ بالبیع والشراء ۔ (۴/۳۳۸ ، فصل وأما الذی ما یرجع إلی المعقود علیہ ، رد المحتار:۹/۴۵۴) (فتاوی حقانیہ: ۶/۵۷، آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۹/۱۶۷) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ أحکام الجراحۃ الطبیۃ ‘‘ : تتضمن الجراحۃ الطبیۃ فی غالب صورہا کثیراً من المخاطر ، والأضرار التی قد تفضی بالمریض إلی الہلاک والموت المحقق أو تؤدی إلی تلف عضو أو أعضاء من جسدہ ، لذا فإن الحکم بجوازہا فی الشریعۃ الإسلامیۃ مقید بشروط لا بد من توفرہا ۔ (ص/۱۰۲، المبحث الثالث) (۲) ما في ’’ أحکام الجراحۃ الطبیۃ ‘‘ : الشرط الثامن أن لا یترتب علی فعلہا ضرر أکبر من ضرر المرض ۔ (ص/۱۰۳، المبحث الثالث) (۳) ما في ’’ أحکام الجراحیۃ الطبیۃ ‘‘ : فإن کانت المفاسد التی تقرب علی الجراحۃ أکبر من المفاسد الموجودۃ فی المرض حرم علیہم الإقدام علی فعل الجراحۃ ، لأن الشریعۃ=