محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مسلم معمار کے ہاتھوں سودی بینک یا مندر کی تعمیر مسئلہ(۴۶۴): فی نفسہٖ معمار اور مستری کے کام میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے(۱)، بینک کا سودی کاروبار کرنا، اور مندر میں بت پرستی کرنا، یہ اُن فاعلین کا فعل ہے، جس کا وبال اور گناہ انہی پر ہوگا، لہٰذا معمار اور مستری کے لیے بینک اور مندر کی تعمیر کی اجرت لینا جائز تو ہے(۲)، البتہ مزاجِ شریعت کے خلاف ہے۔(۳) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : { فانطلقا حتیٰٓ إذا أتیآ أہل قریۃن استطعما أہلہا فأبوا أن یضیّفوہما فوجدوا فیہا جدارًا یرید أن ینقضّ فأقامہ قال لو شئت لتَّخذتَ علیہ أجرًا} ۔ (سورۃ الکہف: ۷۷) (۲) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ولو استأجر الذمي مسلماً لیبنی لہ بیعۃ أو کنیسۃ جاز ویطیب لہ الأجر ۔ کذا في المحیط ۔ (۴/۴۵۰) وفیہ أیضًا : مسلم آجر نفسہ من مجوسي لیوقد لہ النار لا بأس بہ ۔ کذا فی الخلاصۃ ۔ (۴/۴۵۰) وفیہ أیضًا : إذا استأجر الذمي من المسلم بیتاً لیبیع فیہ الخمر جاز عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالی خلافاً لہما ۔ کذا في المضمرات ۔ (۴/۴۴۹) (۳) ما في ’’ نوازل فقہیۃ معاصرۃ ‘‘ : فقال السرخسي : لا بأس بأن یؤاجر المسلم دارًا من الذمي لیسکنہا ، فإن شرب فیہا الخمر ، أو عبد فیہا الصلیب ، أو أدخل فیہا الخنازیر ، لم یلحق للمسلم إثم في شيء من ذلک ، لأنہ لم یؤاجرہا لذلک ، والمعصیۃ فی فعل المستأجر دون قصد رب الدار ، فلا إثم علی رب الدار فی ذلک ، ویعرف جوازہ من بعض تصریحات الفقہاء ، ولکن طبیعۃ الإسلامیۃ تأبی عن قبولہا ۔ (ص/۴۳۳ ،۴۳۴ ، إجارۃ المنازل علی البنوک) (احسن الفتاوی: ۷/۳۲۹، سودی کاروبار کرنے والے اداروں میں بجلی کی فٹنگ، کتاب الاجارہ)