محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
کتاب الإجارۃ ٭…اجارہ (کرایہ داری) کے مسائل…٭ عقد اجارہ مسئلہ(۴۱۸): عقد اجارہ ؛ متعین اجرت کے بدلے متعین منفعت کی بیع کوعقدِ اجارہ کہتے ہیں(۱)، عقد اجارہ شرعاً جائز ہے۔(۲) عقد اجارہ کے صحیح ہونے کی چند شرطیں ہیں: (۱) عاقدین کی رضامندی، (۲) معقود علیہ کی تعیین، (۳) اجرت اور وصف کی تعیین، (۴) منافع کی تعیین ، (۵) مدتِ اجارہ کی تعیین، (۶) مستاجِر معقود علیہ کو کس کام کے لیے استعمال کرے گا؛ اس کی تعیین، (۷) معقود علیہ کی تسلیم پر قدرت، (۸) معقود علیہ کی شرعاً اباحت، (۹) معقود علیہ پر اجرت لینے کا معروف ہونا، (۱۰) اجرت کا معقود علیہ کی جنس سے نہ ہونا۔(۳) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ کنز الدقائق مع البحر الرائق ‘‘ : ہي بیع منفعۃ معلومۃ بأجر معلوم ۔ (۷/۵۰۶) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : ہي تملیک نفع مقصود من العین بعوض ۔ (۹/۶، الفقہ الحنفي في ثوبہ الجدید :۴/۳۳۹ ، فتاوی النوازل:ص/۳۷۰) (۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {فإن اَرضعنَ لکم فاٰتوہنّ اُجورہنّ} ۔ (سورۃ الطلاق: ۶) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن عروۃ بن الزبیر ، عن عائشۃ رضي اللہ عنہا : واستأجر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأبو بکر رجلا من بني الدِّیل ، ثم من بني عبد بن عدي ہادیاً خرِّیتاً - الخرّیت الماہر بالہدایۃ - ۔ (۱/۳۰۱ ، في الإجارات ، وص/۳۹۱ ، کتاب الإجارۃ ، احیاء التراث العربي ، بیروت)=