محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مال مجہول کی ضمانت لینا مسئلہ(۴۸۱): اگر کوئی شخص کسی کی طرف سے مجہول وغیر متعین مال کی ضمانت لے، مثلاً؛ یہ کہے کہ تمہارا جتنا بھی قرضہ فلاں شخص کے ذمہ ہے، میں ان سب کا ضامن ہوں ، یا یہ کہے کہ تم فلاں کو جتنا بھی قرض دو گے میں اس کا ضامن ہوں، تو اس طرح کا معاملہ کرنا شرعاً درست ہے، کیوں کہ ائمۂ ثلاثہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ ) کے نزدیک کفالہ میں مالِ مجہول کی ضمانت لینا جائز ہے۔(۱) ------------------------------ والحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : قولہ : (ولو المال مجہولاً) لابتنائہا علی التوسع ، وقد أجمعوا علی صحتہا بالدرک مع أنہ لا یعلم کما یستحق من المبیع ۔ (۷/۴۵۳ ، کتاب الکفالۃ ، مطلب کفالۃ المال قسمان) ما في ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘ : ضمان المجہول لا یشترط فی الکفالۃ بالمال عند الجمہور الفقہاء أن یکون الدین معلوم القدر والصفۃ والعین ، فتصح الکفالۃ بالمعلوم کقولہ : تکفلت عنہ بألف ، أو بالمجہول کقولہ : تکفلت عنہ بمالک علیہ ، أو بما یدریک فی ہذا البیع من الضمان ، لأن الکفالۃ عقد تبرع مبینۃ علی التوسع ، فیحتمل فیہا الجہالۃ بعکس البیع ۔ (۶/۴۱۶۲ ، کتاب الکفالۃ ، المبحث الثاني) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات:ص/۳۰۲ ،۳۰۳)