محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
فسخ نکاح میں حَکَم کا فیصلہ مسئلہ(۱۹۳): شرعی حَکَم کا فیصلہ فسخ نکاح وغیرہ میں نافذ العمل ہوگا(۱)، اسی طرح مسلم سِوِل جج ، مجسٹریٹ وغیرہ جو گورنمنٹ کی جانب سے اس قسم کے معاملات میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہوں، اگر وہ مسلمان ہیں اور قانونِ شرع کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں، تو ان کا فیصلہ ،شرعی قاضی کے فیصلہ کے قائم مقام ہوگا، یعنی اگر وہ نکاح کو فسخ کردیں، تو نکاح فسخ ہوجائے گا۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : ویصیر القاضي قاضیاً بتراضي المسلمین ، فیجب علیہم أن یلتمسوا والیاً مسلماً منہم ۔ اہـ ۔ وعزاہ مسکین في شرحہ إلی الأصل ۔۔۔۔۔۔۔ وفي ’’ الفتح ‘‘ : وإذا لم یکن سلطان ولا من یجوز التقلد منہ کما ہو في بعض بلاد المسلمین غلب علیہم الکفار کقرطبۃ الآن ، یجب علی المسلمین أن یتفقوا علی واحد منہم یجعلونہ والیاً فیولي قاضیاً ، ویکون ہو الذي یقضي بینہم ۔ (۸/۴۱ ، ۴۲ ، کتاب القضاء ، مطلب أبو حنیفۃ دعي إلی القضاء ثلاث مرات فأبی ، ومطلب في حکم تولیۃ القضاء في بلاد تغلب علیہا الکفار ، دیوبند) (الحیلۃ الناجزۃ:ص/۶۰، فتاوی حقانیہ : ۴/۵۹۰،۵۹۱، فتاوی دارالعلوم: ۸/۱۴۷) ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : (تولیۃ الخصمین حاکمًا یحکم بینہما ، ورکنہ لفظہ الدّالّ علیہ مع قبول الآخر) ذلک (وشرطہ من جہۃ المحکم) بالکسر (العقل لا الحریۃ والإسلام) ۔۔۔۔۔ (و) شرطہ (من جہۃ المحکم) بالفتح (صلاحیتہ للقضاء) ۔ (۸/۱۱۲، کتاب القضاء ، باب التحکیم ، دار الکتاب دیوبند) (۲) ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : (ویجوز تقلّد القضاء من السلطان العادل والجائر) ولو کافراً ۔ ذکرہ مسکین وغیرہ ۔ تنویر مع الدر ۔ وفي الشامیۃ : قولہ : (ولو کافراً) في التاتارخانیۃ : الإسلام لیس بشرط فیہ : أي في السلطان الذي یقلد ۔ (۸/۴۱ ، کتاب القضاء ، مطلب أبوحنیفۃ دعي إلی القضاء ثلاث مرات فأبی ، دیوبند)