محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ہندوؤں کے برتنوں میں کھانا مسئلہ(۵۸۴): ہندؤوں کے برتنوں میں کھانا پینا اس وقت درست ہوگا، جب کہ ان کی پاکی کا علم ہو، لیکن اگر یہ معلوم ہوجائے کہ برتن ناپاک ہیں ، تو اُن کو دھونے سے پہلے ان میں کھانا پینا درست نہیں (۱)، اور اگر علم نہ ہو تو مکروہ ہے ۔ (۲) ------------------------------ = السمن والجبن والفراء ، فقال: ’’ الحلال ما أحل اللّٰہ في کتابہ ، والحرام ما حرّم اللّٰہ في کتابہ ، وما سکت عنہ فہو مما عفا عنہ ‘‘ ۔ (۲/۵۷۸ ، رقم الحدیث : ۱۷۲۶ ، بیروت) ما في ’’ مرقاۃ المفاتیح ‘‘ : قولہ : (الحلال ما أحل اللّٰہ) أي بین تحلیلہ (في کتابہ) یعني إما مبیناً وإما مجملاً بقولہ : {وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہٰکم عنہ فانتہوا} أي یشکل بکثیر من الأشیاء التي صح تحریمہما بالحدیث ، ولیس بصریح في الکتاب (وما سکت) أي الکتاب (عنہ) أي عن بیانہ أو وما أعرض اللّٰہ عن بیان تحریمہ وتحلیلہ رحمۃ من غیر نسیان (فہو مما عفا عنہ) أي عن استعمالہ ، وأباح في أکلہ ، وفیہ أن الأصل في الأشیاء الإباحۃ ، ویؤیدہ قولہ تعالی : {ہو الذي خلق لکم ما في الأرض جمیعاً} ۔ (۸/۱۳۱ ، کتاب الأطعمۃ) (۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وہکذا یقال في غیرہ من الأشیاء الجامدۃ المضرۃ في العقل أو غیرہ ، یحرم تناول القدر المضر منہا دون القلیل النافع ، لأن حرمتہا لیست لعینہا بل لضررہا ۔ (۱۰/۳۸ ، کتاب الأشربۃ) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ جامع الترمذي ‘‘ : عن أبي ثعلبۃ قال : سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن قدور المجوس قال : ’’ أنقوہا غسلا وأطبخوا فیہا ‘‘ ۔ (۲/۲ ، أبواب أطعمۃ رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہ ﷺ) وفیہ أیضًا : عن أبي الحوراء السعید قال : قلت لحسن بن علي رضي اللّٰہ تعالی عنہ : ما حفظت من رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہ ﷺ؟ قال : حفظت من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ دع ما یریبک إلی ما لا یریبک ‘‘ ۔ (۲/۷۸ ، قبیل صفۃ الجنۃ) (۲) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : قال محمد رحمہ اللّٰہ تعالی : ویکرہ الأکل والشرب في أواني المشرکین قبل الغسل ، ومع ہذا لو أکل أو شرب فیہا قبل الغسل جاز ، ولا یکون =