محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
یک مُشت مہر کی ادائیگی مسئلہ(۱۶۴): مہر یک مُشت ادا کرنا بہتر ہے، لیکن اگر یک مُشت مہر کی ادائیگی مشکل ہو ، تو اسے قسط وار بھی ادا کیا جاسکتا ہے، باہمی مشورہ کے ذریعے قسطیں مقرر کرلی جائیں کہ کل قسطیں اتنی ہوں گی، اور ہر قسط میں اتنی مقدار دی جائے گی، نیز وقت کی تعیین بھی کرلی جائے تو بہتر ہے، تاکہ جھگڑے فساد سے بچ جائیں، اسی طرح اگر عقدِ نکاح کے وقت تمام مہر یا بعض مہر کا مؤجل یا معجل دینا طے ہوا ہو، تو اس کے موافق عمل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیںہے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : (لأخذ ما بین تعجیلہ) من المہر کلہ أو بعضہ (أو) أخذ (قدر ما یعجل لمثلہا عرفاً) ۔ بہ یفتی ۔ لأن المعروف (ان لم یؤجل) أو یعجل (کلہ) فکما شرط لأن الصریح یفوق الدلالۃ ۔ (۴/۲۹۰، کتاب النکاح ، باب المہر) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وان بینوا قدر المعجل یعجل ذلک وإن لم یبینوا شیئًا ینظر إلی المرأۃ وإلی المہر المذکور في العقد أنہ کم یکون المعجل لمثل ہذہ المرأۃ من مثل ہذا المہر فیجعل ذلک معجلاً ولا یقدر بالربح ولا بالخمس ، وإنما ینظر إلی المتعارف وإن شرطوا فی العقد تعجیل کل المہر یجعل الکل معجلاً ویترک العرف ۔ کذا في فتاوی قاضي خان ۔ (۱/۳۱۸ ، کتاب النکاح ، الفصل الحادي عشر في منع المرأۃ) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وإذا کان المہر مؤجلاً أجلاً معلومًا فحل الأجل لیس لہا أن تمنع نفسہا لتستوفی في المہر في أصل أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللہ تعالی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولو کان بعضہ عاجلاً وبعضہ آجلاً فاستوفت العاجل ، وکذلک لو أجلتہ بعد العقد مدۃ معلومۃ لیس لہا أن تحبس نفسہا ۔ (۱/۳۱۸ ، کتاب النکاح ، الباب السابع فی المہر ، الفصل الحادی عشر ، الموسوعۃ الفقہیۃ :۳۹/۱۶۶، مہر) ( فتاوی حقانیہ : ۴/۳۷۱، امداد الاحکام : ۳/۳۶۲،۳۶۳)