محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
سودی معاملہ کی ایک صورت مسئلہ(۳۳۸): بعض لوگ گاڑیوں کا کاروبار اس طرح کرتے ہیں کہ گاڑی کے ضرورت مند شخص کو ، مثلاً ایک لاکھ روپیہ قرض دیتے ہیں، جس کی ادائیگی کے لیے کم وبیش دو ڈھائی سال کی مدت مقرر کی جاتی ہے، اور وہ اپنے اس قرض پر پچاس ہزار روپئے مزید وصول کرتے ہیں، شرعاً یہ زائد رقم سود ہے، جس کا لینا دینا شرعاً حرام ہے(۱)۔ اس کاروبار کے جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ قرض دینے والے لوگ خود ، مثلاً ایک لاکھ روپئے میں گاڑی خرید لیں، اور اس پر اپنے مالکانہ حقوق ثابت ہوجانے کے بعد ضرورت مند شخص کو دو ڈھائی سال کی مدت پر ادھار، دیڑھ لاکھ روپئے میں فروخت کردے۔(۲) ------------------------------ = تمکن من ردہ ، بأن عرف صاحبہ ، وبالتصدق بہ إن لم یعرفہ ، لیصل إلیہ نفع مالہ إن کان لا یصل إلیہ عین مالہ ۔ (۵/۳۴۹ ، کتاب الکراہیۃ ، الباب الخامس عشي في الکسب) ما في ’’ العرف الشذي ‘‘ : (ولا صدقۃ من غلول) الغلول في اللغۃ : سرقۃ الإبل ، وفي اصطلاح الفقہاء : سرقۃ مال الغنیمۃ ، ثم اتسع فیہ ، فأطلق علی کل مال خبیث ، قال في الدر المختار : ان التصدق بالمال الحرام ثم رجاء الثواب منہ حرام وکفر ۔ (۱/۳۵ ، کتاب الطہارۃ ، باب ما جاء لا تقبل الصلاۃ) ما في ’’ معارف السنن ‘‘ : قال شیخنا : ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایۃ وغیرہا : أن من ملک بملک خبیث ، ولم یمکنہ الرد إلی المالک ، فسبیلہ التصدق علی الفقراء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال : إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ ، ولا یرجو بہ المثوبۃ ۔ (۱/۳۴ ، أبواب الطہارات ، باب ما جاء لا تقبل صلاۃ بغیر طہور) الحجۃ علی ما قلنا :=