محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
گیسٹ ہاؤس میں اجنبی مرد وعورت کی رہائش مسئلہ(۴۶۱): گیسٹ ہاؤس بنوانا اور اس میں ٹھہرنے کا کرایہ لینا درست ہے(۱)، اوراس کوشش کے باوجود کہ وہاں کوئی برائی ہونے نہ پائے، پھر بھی آنے والے برائی کریں (مثلاً کوئی شخص کسی اجنبیہ عورت کو ساتھ لاکر اسے اپنی بیوی بتلاتاہے، اور پھراسی گیسٹ ہاؤس میں اس کو لے کر رہتا ہے، اور غلط کام کرتا اور کرواتا بھی ہے)،تو اب اس کا گناہ گیسٹ ہاؤس والوں پر نہیں ہوگا، اور جو کرایہ وصول کیا گیا وہ جائز ودرست ہوگا، اس کو ناجائز نہیں کہا جائیگا۔(۲) ------------------------------ = لا تحسب من الأجرۃ ، أي العطیۃ التي تعطی للخادم من أحد الناس لا تحسب من الأجرۃ التي یأخذہا من سیدہ ۔ (۱/۶۵۳، إجارۃ الآدمي) (جدید معاشی نظام میں اسلامی قانونِ اجارہ:ص/۲۲۸) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : قولہ : (وجاز إجارۃ بیت الخ) ہذا عندہ أیضاً ، لأن الإجارۃ علی منفعۃ البیت ، ولہذا یجب الأجر بمجرد التسلیم ۔(۹/۵۶۲ ، الحظر، فصل في البیع) (۲) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وإذا استأجر الذمي من المسلم دارًا یسکنہا فلا بأس بذلک وإن شرب فیہا الخمر أو عبد فیہا الصلیب أو أدخل فیہا الخنازیر ولم یلحق المسلم في ذلک بأس لأن المسلم لا یؤاجرہا لذلک إنما آجرہا للسکنی ۔ کذا في المحیط ۔ (۴/۴۵۰ ، الفصل الرابع في فساد الإجارۃ) ما في ’’ نوازل فقہیۃ معاصرۃ ‘‘ : فقال السرخسي : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والمعصیۃ في فعل المستأجر دون قصد رب الدار ، فلا إثم علی رب الدار في ذلک ۔ (ص/۴۳۳ ، إجارۃ المنازل علی البنوک) (فتاوی محمودیہ: ۱۶/۵۶۹،کراچی)