محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
انعام کی حیثیت اور مقدار کی تعیین مسئلہ(۴۵۷): اگر کسی شخص کی کوئی چیز گم ہوجائے، اور وہ اعلان کرے کہ جو شخص میری فلاں گم شدہ چیز مجھ کو لاکر دے گا، میں اسے ایک قیمتی انعام دوں گا، لیکن اس نے انعام کی حیثیت اورمقدار متعین نہیں کیا ، جب کہ ’’جُعْل‘‘ جس کو انعام سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس کا متعین اور مباح ہونا ضروری ہے(۱)، اگر متعین نہ ہو تو اس سے جعالت فاسد ہوگی، اور کام کرنے والے کو اجرتِ مثل ملے گی۔ (۲)نوٹ : فقہائے حنفیہ جِعَاْلَہ کو صرف مسئلہ اِباق کی حد تک جائز مانتے ہیں، اور ائمۂ ثلاثہ کے نزدیک جِعَالہ مسئلۂ اِباق، گمشدہ اشیاء کے لوٹانے میں اور اس کے علاوہ دیگر امور میں بھی جائز ہے۔(۳) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {قالوا نفقد صُواع الملک ولمن جآء بہ حِمل بعیر وأنا بہ زعیم} ۔ (سورۃ یوسف :۷۲) ما في ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘ : تعریف الجعالۃ شرعًا : التزام عوض معلوم علی عمل معین أو مجہول ، عسر عملہ ۔ (۵/۳۸۶۴ ، الفصل الرابع الجعالۃ) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : شروط الجعالۃ : ثالثاً : أن تکون المنفعۃ معلومۃ حقیقۃ ، مباحاً الإنتفاع بہا شرعاً ۔ (۵/۳۸۶۹ ، شروط الجعالۃ) (۲) ما في ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘ : کون الجعل (أو الأجرۃ) مالاً معلوماً ، فإن کان الجعل مجہولا فسد العقد لجہالۃ العوض ، مثل من وجد سیارتي فلہ ثوب ، أو أرضیہ ، ونحوہ ویکون للواجد (الراد) أجرۃ مثلہ ، کالإجارۃ الفاسدۃ ۔ (۵/۳۸۶۹ ، شروط الجعالۃ) (۳) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : لا تجوز الجعالۃ عند الحنفیۃ لما فیہا من الغرر أي=