محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
فلاحی اداروں اور تنظیموں کی حیثیت مسئلہ(۷۷): جو تنظیمیں اور فلاحی ادارے زکوۃ کی رقم جمع کرتے ہیں، وہ اس رقم کے مالک نہیں ہوتے، بلکہ زکوۃ دہندگان کے وکیل ہوتے ہیں، لہٰذا اگر وہ صحیح مصرف میں خرچ کریں گے ، توزکوۃ دہندگان کی زکوۃ ادا ہوگی ، ورنہ نہیں۔(۱) ------------------------------ =(۳/۱۸۷۸، کتاب الزکاۃ ، سادسا : زکاۃ شرکۃ المضاربۃ) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : (ولا تجب) الزکاۃ عندنا (في نصاب) مشترک (من سائمۃ) ومال تجارۃ (وإن صحت الخلطۃ فیہ) ۔ قولہ : (في نصاب مشترک) المراد أن یکون بلوغہ النصاب بسبب الاشتراک وضم أحد المالین إلی الآخر بحیث لا یبلغ مال کل منہما بانفرادہ نصاباً ۔ (۳/۲۱۶ ، کتاب الزکاۃ ، باب زکوٰۃ المال) ما في ’’ فقہ النوازل للشیخ محمد بن حسین الجیزاني ‘‘ : تجب زکاۃ الأسہم علی أصحابہا ، وتخرجہا إدارۃ الشرکۃ نیابۃ عنہم إذا نص في نظامہا الأساسي علی ذلک ، أو صدر بہ قرار من الجمعیۃ العمومیۃ ، أو قانون الدولۃ یلزم الشرکات بإخراج الزکاۃ ، أو حصل تفویض من صاحب الأسہم لإخراج إدارۃ الشرکۃ زکاۃ أسہمہ ۔ (۲/۲۰۲، المکتبۃ دارابن الجوزی) (تجارتی کمپنیوں کا لائحۂ عمل شریعت کے دائرہ میں: ص/۷۲،۷۳) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {إنما الصدقٰت للفقراء والمسٰکین والعٰملین علیہا والمؤلّفۃ قلوبہم ۔۔۔۔۔۔۔۔ وفي سبیل اللہ وابن السبیل} ۔ (سورۃ التوبۃ :۶۰) ما في ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : فإن الصدقۃ تقتضي تملیکاً وقال : إذ شرط الصدقۃ وقوع الملک للمتصدق علیہ ۔ (۳/۱۶۱) ما في ’’ سنن أبي داود ‘‘ : قولہ علیہ السلام : ’’ إن الصدقۃ لا تحل لغني ولا لذي مرۃ سوی ‘‘ ۔ (ص/۲۳۱ ، کتاب الزکاۃ) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : ولا یخرج عن العہدۃ بالعزل ، بل بالأداء للفقراء ۔۔۔۔۔۔ فلو ضاعت لا تسقط عنہ الزکاۃ ولو مات کانت میراثاً عنہ ۔ =