محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
قربانی کی کھال کی رقم کا مصرف مسئلہ(۸۴): قربانی کی کھالیں فروخت کرنے کے بعد ان کا حکم زکوٰۃ کی رقم کا ہے ، جس کی تملیک ضروری ہے ، اور مسجد، مدرسہ یا کنویں کی تعمیر میں تملیک نہیں پائی جاتی، اس لیے اس میں خرچ کرنا درست نہیں ۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ المغني والشرح الکبیر ‘‘ : روي عن ابن عمر أنہ یبیع الجلد ویتصدق بثمنہ ۔ (۱۱/۱۱۲) ما في’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : من باع جلد أضحیۃ فلا أضحیۃ لہ ، فإن باع نفذ البیع عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہ اللہ تعالی ، ووجب علیہ التصدق بثمنہ ، لأن القربۃ ذہبت عنہ ببیعہ ۔ (۵/۱۰۴) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : فإن بیع اللحم أو الجلد بہ أي بمستہلک أو بدراہم تصدق بثمنہ ۔(۹/۳۹۸) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ویتصدق بجلدہا أو یعمل منہ نحو غربال وجراب ، ولا بأس بأن یشتري بہ ما ینتفع بعینہ مع بقائہ استحساناً ، ولا یشتری بہ ما لا ینتفع بہ إلا بعد الاستہلاک، نحو اللحم والطعام ، ولا یبیعہ بالدراہم لینفق الدراہم علی نفسہ وعیالہ ، واللحم بمنزلۃ الجلد في الصحیح ، حتی لا یبیعہ بما لا ینتفع بہ إلا بعد الاستہلاک ، ولو باعہا بالدراہم لیتصدق بہا جاز ، لأنہ قربۃ کالتصدق ۔ (۵/۳۰۱ ، کذا في البحر الرائق : ۸/۳۲۷) ما في ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : وأیضاً فإن الصدقۃ تقتضي تملیکاً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلا یجوز أن یکون ذلک مجزیاً من الصدقۃ ، إذ شرط الصدقۃ وقوع الملک للمتصدق علیہ ۔ (۳/۱۶۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : قولہ : (تملیکاً) فلا یکفي فیہا الإطعام إلا بطریق التملیک ، ولو أطعمہ عندہ ناویا الزکاۃ لا تکفي ۔۔۔۔۔ (نحو مسجد) کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد ، وکل ما لا تملیک فیہ ۔ (۳/۲۶۳) (فتح القدیر :۲/۲۷۲ ، دار الکتب العلمیۃ بیروت)