محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
کافر امام کی اقتدا میں پڑھی گئیں نمازوں کا اعادہ مسئلہ(۴۹): اگر کسی امام نے ایک عرصہ تک نماز پڑھائی ، لیکن بعد میں شواہد وقرائن سے معلوم ہوا کہ وہ کافرہے، تو اس کی اقتدا میں پڑھی گئیں نمازوں کا اعادہ فرض ہے۔(۱) ------------------------------ =(۱/۴۷۰ ، کتاب الصلاۃ ، باب شروط الصلاۃ) (فتاوی محمودیہ :۱۹/۳۱۲، کراچی) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وإذا ظہرت حدث إمامہ ، وکذا کل مفسد في رأی مقتد بطلت فیلزم اعادتہا ۔ در مختار ۔ وفي الشامیۃ : قال الشامي رحمہ اللہ : إن العبرۃ برأی المقتدي ، حتی لو علم من إمامہ ما یعتقد أنہ مانع والإمام خلافہ أعاد ۔ (۲/۲۹۳ ،۲۹۴ ، مطلب المواضع التي تفسد صلاۃ الإمام دون المؤتم) ما في ’’ الفتاوی الولوالجیۃ ‘‘ : صلاۃ القوم بناء علی صلاۃ الإمام ، حتی فسدت صلاۃ القوم بفساد صلاۃ الإمام ، وتنتقض بسہو الإمام ، ولہذا لا تصح ممن ہو لیس من أہل الإمامۃ للصلاۃ کالمرأۃ والجنب والکافر ، والبناء علی المعدوم باطل ، وعلی الموجود صحیح ۔ (۱/۱۱۴ ، کتاب الطہارۃ ، الفصل العاشر في حق المریض) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : رجل أم قوماً شہراً ثم قال : کنت مجوسیاً فإنہ یجبر علی الإسلام ولا یقبل قولہ ، وصلاتہم جائز ، ویضرب ضرباً شدیداً ، وکذا لو قال : صلیت بکم المدۃ علی غیر وضوئہ وہو ماجن ، لا یقبل قولہ ، وإن لم یکن کذلک ، واحتمل انہ قال علی وجہ التورع والاحتیاط أعادوا صلاتہم ، وکذا إذا بان أن الإمام کافر أو مجنون أو امرأۃ أو خنثی أو أمي أو صلی بغیر احرام أو محدثاً أو جنباً ۔ ہکذا في التبیین ۔ (۱/۸۷ ، بیان من یصلح إماماً لغیرہ) (احسن الفتاوی :۳/۲۷۹ ، باب الامامۃ والجماعۃ)