محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
تعلیمی تاش کا استعمال اور خریدو فروخت مسئلہ(۳۵۹): تعلیمی تاش فی نفسہٖ مالِ متقوم ہے، اس کی خرید وفروخت جائز ہے(۱)، لیکن تاش کھیلنا بسا اوقات پیش خیمہ وذریعہ ہوتا ہے قمار کا؛ کہ اس پر مالی ہار جیت کا معاملہ ہونے لگتا ہے، اس لیے اس کی خریدو فروخت اور کھیل سے بچنا چاہیے(۲)، نیز اس کو بلیک میلنگ سے بیچنا جب کہ یہ قانوناً منع ہے درست نہیں، کیوں کہ حکومتی مقرر کردہ قوانین کی خلاف ورزی ناجائز ہے، جب کہ اس میں شرعی مفسدہ نہ ہو۔(۳) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : المراد بالمال ما یمیل إلیہ الطبع ویمکن ادّخارہ لوقت الحاجۃ والمالیۃ تثبت بتمول الناس کافۃ أو بعضہم ، والتقوم یثبت بہا وبإباحتہا الإنتفاع بہ شرعاً ۔ (۷/۷ ، مطلب فی تعریف المال والملک المتقوم ، البحر الرائق : ۵/۴۳۰ ، شرح المجلۃ: ص/۷۰ ، المادۃ :۱۲۶، ۱۲۷، الفقہ الإسلامي وأدلتہ) (جواہر الفقہ:۲/۳۵۲) (۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وما کان سبباً لمحظور فہو محظور ۔ (۹/۴۲۶) ما في ’’ المقاصد الشرعیۃ للخادمي ‘‘ : ان الوسیلۃ أو الذریعۃ تکون محرمۃ إذا کان المقصد محرما ، وتکون واجبۃ إذا کان المقصد واجبا ۔ (ص/۴۶ ، صلۃ الذرائع سدا) (۳) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : لأن طاعۃ الإمام فیما لیس بمعصیۃ فرض ۔ ’’ در مختار‘‘ ۔ وفي الشامیۃ : والأصل فیہ قولہ تعالی : ’’ وأولی الأمر منکم ‘‘ ۔ [سورۃ النساء :۵۹] ۔ وقال علیہ الصلاۃ والسلام : ’’ اسمعوا وأطیعوا ولو أمر علیکم عبد حبشي أجدع ‘‘ ۔ وروي ’’مجدع ‘‘ وعن ابن عمر أنہ علیہ الصلاۃ والسلام قال : ’’ علیکم بالسمع والطاعۃ لکل من یؤمر علیکم ما لم یأمرکم بمنکر ‘‘ ۔ ففي المنکر لا سمع ولا طاعۃ ۔ (۶/۳۱۹ ، مطلب في وجوب طاعۃ الإمام) (فتاوی محمودیہ: ۱۶/۱۴۰،کراچی، مسائل تجارت: ص/۲۴۸)