محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
دعوتِ ولیمہ مسئلہ(۵۸۸): دعوتِ ولیمہ کے قبول کرنے کو علمائے کرام نے ضروری قرار دیا ہے (۱)، لیکن آج کل چوںکہ گانے بجانے اور لہو ولعب کا دور دورہ ہے، اس لیے اگر یہ بات یقینی طور پر پہلے سے معلوم ہو کہ وہاں گانے بجانے اور لہو ولعب کا اہتمام ہوگا، تو ایسی دعوت میں نہیں جانا چاہیے، البتہ اگر وہاں پہنچ کر یہ بات معلوم ہو ، تو واپس نہ آنے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن یہ حکم عوام الناس کے لیے ہے، اور خواص کے لیے یہ حکم ہے کہ اگر وہ لہو ولعب سے روکنے پر قادر ہوں، تو اس سے روک دیں، ورنہ وہاں سے واپس آجائیں، تاکہ داعی پر جب ان کی ناراضگی واضح ہو، تو وہ اپنے عملِ بد سے باز آجائے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الصحیح لمسلم ‘‘ : عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : ’’حق المسلم علی المسلم ست ، قیل ما ہنّ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہ ؟ قال : إذا لقیتہ فسلم علیہ ، وإذا دعاک فاجبہ ۔۔۔۔۔۔ الحدیث ‘‘ ۔ (۲/۲۱۳ ، کتاب السلام ، باب من حق المسلم للمسلم ردّ السلام ، قدیمي) ما في ’’ الہندیۃ ‘‘ : واختلف في إجابۃ الدعوۃ ، قال بعضہم واجبۃ لا یسع ترکہا ، وقالت العامۃ ہي سنۃ والأفضل أن یجیب إذا کانت ولیمۃ وإلا فہو مخیر ، والإجابۃ أفضل ، لأن فیہا إدخال السرور في قلب المؤمن ۔ (۵/۳۴۳ ، الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات) (۲) ما في’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ولو دعي إلی دعوۃ ، فالواجب أن یجیبہ إلی ذلک ، وإنما یجب علیہ أن یجیبہ إذا لم یکن ہناک معصیۃ ولا بدعۃ ، وإن لم یجبہ کان عاصیاً ، والامتناع أسلم في زماننا إلا إذا علم یقیناً بأنہ لیس فیہا بدعۃ ولا معصیۃ ۔۔۔ من دعي إلی ولیمۃ فوجد ثمۃ لعباً أو غنا فلا بأس أن یقعد ویأکل، فإن قدر علی المنع یمنعہم وإن لم یقدر یصبر ،=