محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
نا قابلِ جماع عورت مہر کی حق دار ہوگی یا نہیں ؟ مسئلہ(۱۶۵): عورت کا، مہرِکامل کی حق دار ہونے کے لیے کم از کم اس کے ساتھ خلوتِ صحیحہ کا پایا جانا ضروری ہے(۱)، اور عورت کا جماع کے قابل نہ ہونا یہ خلوتِ صحیحہ کے لیے مانع ہے(۲)، لہٰذا اگر کوئی عورت قابلِ جماع نہ ہو، اور میاں بیوی کے مابین فُرقت واقع ہوجائے، تو اگرمہر، مہرِ مسمٰی ہو، تو وہ نصفِ مہر کی حق دار ہوگی(۳)، اوراگر مہر، مہرِ مسمٰی نہ ہو، تو وہ متعہ(قمیص، اوڑھنی اور چادر)کی حق دار ہوگی(۴)، یعنی ایک ایسا مکمل لباس جسے پہن کر دیندار عورت اپنے گھر سے باہر نکلتی ہے۔(۵) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : فقال [البسیط] : وخــــلوۃ الزوج مثــــل الوطء في صور وغیرہ وبہذا العقد تحصیل تکمیل مہر وأعداد کذانسب إنفاق سکنی ومنع الأخت مقبــول ۔ (۴/۲۵۸ ، کتاب النکاح ، مطلب فی أحکام الخلوۃ) (الفتاوی الہندیۃ :۱/۳۰۳ ، کتاب النکاح ، الباب السابع) (۲) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : والخلوۃ الفاسدۃ أن لا یتمکن من الوطء حقیقۃً کالمریض المدنف الذي لا یتمکن من الوطء ۔۔۔۔۔ أما المرض والمراد بہ ما یمنع الجماع ۔ (۱/۳۰۴) (۳) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : ان المہر یجب بنفس العقد والدخول أو الموت مؤکد لہ ، والطلاق قبلہما منصف لہ ۔ (۴/۱۹۱، کتاب النکاح ، مطلب في أحکام الخلوۃ ، دیوبند ، بدائع الصنائع :۲/۵۹۳ ، کتاب النکاح ، ما یسقط بہ نصف المہر) (۴) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وتجب متعۃ لمفوضۃ وہي من زوجت بلا مہر طلّقت قبل الوطء وہي درع وخمار وملحفۃ لا تزید علی نصفہ ۔ (۴/۱۷۸، کتاب النکاح=