محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
شریکین کا اپنی رقم سے الگ الگ تجارت کرنا مسئلہ(۳۸۴): اگر دو شریک شرکتِ اموال کا معاملہ کریں، اور دونوں اپنے اپنے مال کو ایک دوسرے کے مال کے ساتھ نہ ملائیں، بلکہ الگ الگ اپنی رقم سے تجارت کرتے رہیں، اورفیصد کے اعتبار سے نفع بھی طے کرلیں، تو اب حاصل ہونے والے نفع میں دونوں شریک ہوں گے، کیوں کہ احناف کے نزدیک عقد شرکت کے صحیح ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ شرکاء اپنا سرمایہ آپس میں مخلوط کریں، بلکہ اگر ہر شریک کا سرمایہ اسی کے پاس رہے، تو بھی شرکت صحیح ہوجاتی ہے، اور حاصل ہونے والے نفع میں دونوں شریک ہوجاتے ہیں۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : واختلاط الربح یوجد وإن اشتری کل واحد منہما بمال نفسہ علی حدۃ ، لأن الزیادۃ وہی الربح تحدث علی الشرکۃ ۔ (۵/۸۰ ، کتاب الشرکۃ ، شرائط) ما في ’’ فتاوی النوازل ‘‘ : ولا یشترط خلط مالین خلافاً لزفر رحمہ اللّٰہ تعالی والشافعي رحمہ اللّٰہ تعالی ۔ (ص/۳۱۶ ، کتاب الشرکۃ) ما في ’’ الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید ‘‘ : وتجوز الشرکۃ وإن لم یخلط المال ، وقال زفر والشافعي : لا تجوز ۔ (۵/۲۲ ، حکم خلط المال فی الشرکۃ ، الفتاوی الخانیۃ علی ہامش الہندیۃ :۳/۶۱۳) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات :ص/ ۲۰۵)