محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
چچا کا اپنے بھتیجے کی بیوہ سے یا بھتیجے کا اپنے چچا کی بیوہ سے نکاح مسئلہ(۱۵۲): چچا اپنے بھتیجے کی بیوہ سے، یا بھتیجہ اپنے چچا کی بیوہ سے عدت گذر جانے کے بعد نکاح کرسکتا ہے، کیوں کہ ان کا شمار محرمات میں نہیں ہے(۱)،بشرطیکہ کوئی اور مانعِ شرعی موجود نہ ہو۔ ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {حرّمت علیکم اُمّہٰتکم وبنٰتکم واخوٰتکم وعمّٰتکم وخٰلٰتکم وبنٰت الاخ وبنٰت الأخت واُمّہٰتکم الٰتی ارضعنکم وأخوٰتکم من الرضاعۃ واُمّہٰت نسآئکم وربآئبکم الٰتي في حجورکم من نسآئکم الٰتی دخلتم بہنّ فإن لم تکونوا دخلتم بہنّ فلا جناح علیکم وحلآئل ابنآئکم الذین من أصلابکم وأن تجمعوا بین الأختیین إلا ما قد سلف ۔ إن اللہ کان غفورًا رحیمًا ۔ والمحصنٰت من النسآء إلا ما ملکت أیمٰنکم کتٰب اللّٰہ علیکم ، وأحل لکم ما ورآء ذٰلکم} ۔ (سورۃ النسآء :۲۳،۲۴) ما في ’’ التنویر مع الدر والرد ‘‘ : وحرم علی المتزوج ذکرًا کان أو انثیٰ نکاح (أصلہ وفرعہ) علا أو نزل (وبنت أخیہ واختہ وبنتہا) ولو من زنا (وعمتہ وخالتہ) ۔۔۔۔۔ (وبنت زوجتہ الموطوء ۃ وأم زوجتہ) وجداتہا مطلقًا بمجرد العقد الصحیح مطلقًا (وإن لم توطأ) الزوجۃ ۔۔۔۔۔ (وزوجۃ أصلہ وفرعہ مطلقًا) ولو بعیدًا (دخل بہا أو لا) ۔۔۔۔۔ والکل رضاعًا إلا ما استثنی فی بابہ ۔ (۴/۸۲ ، فصل فی المحرمات ، الہدایۃ :۲/۳۰۷ ، الفتاوی الہندیۃ : ۱/۲۷۳ ، بدائع الصنائع :۲/۵۲۹) (امداد الاحکام: ۳/۲۴۲-۲۴۴)