محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
(۲) دوسری صورت : ایسی شرط کے ساتھ معلق کیا جائے جو عقدِ کفالہ کے ملائم اور مناسب نہ ہو، جیسے کوئی شخص یوں کہے کہ : اگر بارش ہوگئی تو میں زید کی طرف سے ضامن ہوں ورنہ نہیں۔ اس قسم کی شرط کے ساتھ عقد کو معلق کرنا جائز نہیں۔ تعلیق کے بارے میں حنفیہ کے اصل اُصول کی روشنی میں عقدِ کفالہ کی تعلیق مطلقاً جائز ہونی چاہیے تھی، کیوں کہ کفالہ عقودِ معاوضہ میں سے نہیں، لیکن دوسری صورت میں تعلیق کو اس لیے ناجائز قرار دیا گیا ہے کہ اس صورت میں غرر اور خطر بہت واضح ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ التنویر مع الدر والرد ‘‘ : وتصح لو علقت بشرط صحیح ملائم أي موافق للکفالۃ بأحد أمور الثلاثۃ بکونہ شرطاً للزوم الحق کان استحق المبیع أو شرطاً لإمکان الاستیفاء نحو إن قدم زید فعليّ ما علیہ من الدین وہو مکفول عنہ ، أو شرطاً لتعذرہ أي الاستیفاء نحو إن غاب زید عن المصر فعليّ وأمثلتہ کثیرۃ فہو جملۃ الشروط التي یجوز تعلیق الکفالۃ بہا ۔ (۲/۴۵۷ ، کتاب الکفالۃ ، قبیل مطلب في تعلیق الکفالۃ) (البحر الرائق :۶/۳۷۹ ، کتاب الکفالۃ) (۲) ما في ’’ التنویر مع الدر والرد ‘‘ : (ولا تصح) إن علقت بغیر ملائم (نحو إن ہبت الریح أو جاء المطر) لأنہ تعلیق بالخطر ولا یلزم المال ۔ (۷/۴۵۹) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : ویصح تعلیق الکفالۃ بشرط ملائم کشرط وجوب الحق ۔۔۔۔۔۔۔ ولا یصح بنحو إن ہبت الریح ۔ (۶/۳۷۰ ، کتاب الکفالۃ ، تبیین الحقائق: ۵/۳۶) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات:ص/۲۹۷، ۲۹۸)