محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
کمیشن پربیسی چلانا مسئلہ(۳۴۸): ایک شخص کمیشن پر بیسی چلاتا ہے ، یعنی دس آدمیوں میں سے ہر ایک کے پاس سے ہر ماہ ، ایک ایک ہزار روپئے، دس ماہ تک جمع کرتا ہے، پھر ہر ماہ ان کے درمیان قرعہ اندازی کرتا ہے، جس کا نام نکل آتا ہے اُسے نو ہزار پانچ سو (9500)روپئے لے جاکر دے دیتا ہے، اور پانچ سو روپئے خود بطورِ محنتانہ رکھ لیتا ہے،تو اگر شخصِ مذکور بیسی کے تمام ممبروں کو پہلے سے اس بیسی کی پوری صورتِ حال سے واقف کراکر ، اس طرح کرتا ہے، تو اس کا یہ پانچ سو روپئے رکھ لینا جائز ہوگا، کیوں کہ یہ اس کی مزدوری اور محنتانہ ہے(۱)، البتہ بہتر ہے کہ وہ شخص خود اس بیسی میں شریک نہ ہو، کیوں کہ ایسی صورت میں ایک درجہ سود کا شائبہ پیدا ہوجاتا ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ثم الأجرۃ تستحق بأحد معان ثلاثۃ ؛ إما بشرط التعجیل أو بالتعجیل أو باستیفاء المعقود علیہ ، فإذا وجد أحد ہذہ الأشیاء الثلاثۃ فإنہ یملکہا ۔ کذا في شرح الطحاوي ۔ (۴/۴۱۳ ، الباب الثاني) (الہدایۃ :۳/۲۷۸، کتاب الإجارات ، باب الأجر متی یستحق) (۲) ما في ’’ مشکوۃ المصابیح ‘‘ : عن علي أنہ سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعن آکل الربوا وموکلہ وکاتبہ ‘‘ ۔ (ص/۲۴۶ ، باب الربوا) وفیہ أیضًا : عن عمر بن الخطاب أن : ’’ آخر ما نزلت آیۃ الربوا ، وإن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبض ولم یفسّرہا لنا فدعوا الربوا والریبۃ ‘‘ ۔ رواہ ابن ماجۃ والدارمي ۔ (ص/۲۴۶ ، باب الربوا) (کتاب الفتاوی: ۵/۳۳۵،۳۳۶)