محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
پینشن کی خرید وفروخت مسئلہ(۲۳۲): پینشن ایک قسم کا انعام ہے، جب تک ملازم کا اس پر قبضہ نہ ہو وہ اس کا مالک نہیں بنتا ،اس لیے اس کی بیع جائز نہیں (۱)، البتہ خود حکومت سے اس کی بیع کرنا حقیقت میں بیع نہیں ہے، بلکہ صرف نام و صورت کی بیع ہے،کہ حقیقۃً حکومت نے جو بڑا انعام قسط وار دینے کا وعدہ کیا ہے، اب اسی کو کم مقدار میں یکمشت دے رہی ہے، اس لیے حکومت سے یہ معاملہ جائز ہے۔ (۲) ------------------------------ = ’’ من أقال مسلمًا أقالہ اللہ عثرتہ ‘‘ ۔ (ص/۴۹۰) ما في ’’ حاشیۃ سنن أبي داود ‘‘ : لکن إیراد المؤلف ہذا الحدیث في ہذہ الباب یدل علی إقالۃ البیع وصورتہ إذا اشتری أحد شیئاً من رجل ثم ندم علی اشترائہ ، أما لظہور الغبن أو لزوال حاجتہ إلیہ أو لانعدام الثمن ، فردّ المبیع علی البائع ، وقبل البائع ردّہ ، أزال اللہ تعالی مشقتہ وعثرتہ یوم القیامۃ ، لأنہ إحسان منہ علی المشتري ۔ (رقم الحاشیۃ/۵ ، ص/۴۹۰) ما في ’’ بذل المجہود ‘‘ : معناہ تبایع رجلان فندم واحد منہما فاستقال الآخر فقبل الآخر ، وأقال البیعۃ یعني قبل فسخہا ، محا اللہ سبحانہ ذنوبہ ۔ والعثرۃ ؛ الذلۃ ۔ (۱۱/۱۷۶) ما في’’ الہدایۃ ‘‘ : الإقالۃ جائزۃ في البیع بمثل الثمن الأول ، ولأن العقد حقہما فیملکان رفعہ دفعاً لحاجتہما ، فإن شرط أکثر منہ أو أقل ، فالشرط باطل ، ویرد بمثل الثمن الأول ۔ (۲/۶۹ ، کذا في فتح القدیر : ۶/۴۴۸ ، البحر الرائق : ۶/۱۶۷ ، منحۃ الخالق علی البحر الرائق : ۶/۱۶۸ ، فتح باب العنایۃ بشرح النقایۃ : ۲/۳۵۱ ، الجوہرۃ النیرۃ : ۱/۴۷۷ ، بدائع الصنائع : ۴/۵۹۴ ، الموسوعۃ الفقہیۃ : ۵/۳۲۷ ، المختصر القدوري : ص/۸۰) (جدید مسائل کا حل :ص/۲۸۴، امداد الفتاوی :۳/۴۰۳) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ جامع الترمذي ‘‘ : عن حکیم بن حزام قال : ’’ نہاني رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن أبیع ما لیس عندي ‘‘ ۔ (۱/۲)=