محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
اہلِ کتاب کا ذبیحہ مسئلہ(۵۹۲): جو قوم کسی نبی کی نبوت پر ایمان رکھے ، اور کسی کتابِ سماوی کے تسلیم کرنے کی مدعی ہو، اس کے ذبیحہ کو استعمال کرنے کی گنجائش ہے، جب کہ وہ ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام نہ لے، اگر ذبیحۂ مسلم مُیَسَّرْ آجائے، تو وہ بہر حال مقدم ہے۔ (۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ التفسیر المظہري ‘‘ : قال في الکفایۃ : إنما یحل ذبیحۃ الکتابي فیما إذا لم یذکر وقت الذبح اسم عزیر أو اسم المسیح ، وأما إذا ذکر فلا یحل کما لا یحل ذبیحۃ المسلم إذا ذکر وقت الذبح اسم غیر اللّٰہ تعالی {وما أہل بہ لغیر اللّٰہ} فحال الکتابي في ذلک لا یکون أعلی من حال المسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والصحیح المختار عندنا ہو القول الأول ، یعني ذبائح الکتاب تارکاً للتسمیۃ عامداً أو علی غیر اسم اللّٰہ تعالی لا یؤکل ، إن علم ذلک یقیناً ، أو کان غالب حالہم ذلک ۔ (۳/۷۰ ، سورۃ المائدۃ) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : قال الحنفیۃ : إنما تؤکل ذبیحۃ الکتابي إذا لم یشہد ذبحہ ، ولم یسمع منہ شيء ، أو شہد أو سمع منہ تسمیۃ اللّٰہ تعالی وحدہ ، لأنہ إذا لم یسمع منہ شيء یحمل علی أنہ قد سمی اللّٰہ تعالی ، وجرد التسمیۃ تحسیناً للظن بہ کما بالمسلم ، وإن سمع منہ ذکر اسم اللّٰہ تعالی لکنہ عنی بہ ۔ عزّ وجلّ ۔ المسیح علیہ السلام تؤکل ، إن أظہر تسمیۃ ہي تسمیۃ المسلمین إلا إذا نص فقال مثلاً : بسم اللّٰہ الذي ہو ثالث ثلاث فلا تحل، وإذا سمع منہ إن سمي المسیح وحدہ أو سمی اللّٰہ تعالی والمسیح لا تؤکل ذبیحتہ ، لقولہ عزّ وجلّ : {وما أہل لغیر اللّٰہ بہ} ۔ وہذا أہل لغیر اللّٰہ بہ فلا یؤکل ۔ (۲۱/۱۸۷)